اسلام آباد میں فوج کی طلبی، سیاسی جماعتوں کی مخالفت
پشاور: مختلف سیاسی جماعتوں نے وفاقی حکومت کے اس فیصلے کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے کہ جس کے تحت اس نے وفاقی دارالحکومت کے تحفظ کی خاطر تین ماہ کے لیے فوج کی طلب کیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ ملک میں مارشل لاء کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔
اتوار کے روز اپنے علیحدہ علیحدہ بیانات میں قومی وطن پارٹی کے چیئرمین آفتاب احمد شیرپاؤ، پاکستان پیپلزپارٹی کے صوبائی صدر خانزادہ خان اور پاکستان مسلم لیگ قائد کے صوبائی صدر انتخاب خان چمکنی نے فوجی کو مدد کے لیے طلب کرنے کے فیصلے کی مذمت کی اور اسے حکمرانوں کی ناکامی قرار دیا۔
آفتاب شیر پاؤ نے کہا کہ حکمران گھبراہٹ کا مظاہرہ کررہے ہیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہیں بالکل بھی اندازہ نہیں کہ اس بحران پر کس طرح قابو پایا جائے یا ہنگامی صورتحال کا سامنا کیسے کیا جائے۔
انہوں نے کہا ’’ایسا لگتا ہے کہ حکومت پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے چودہ اگست کے مارچ کے حوالے سے پریشان ہے۔ ہم فوج کی طلبی کی مخالفت کرتے ہیں، اس لیے کہ یہ فیصلہ قوم کے مفاد میں نہیں ہے۔‘‘
آفتاب شیرپاؤ جو سابق وزیرِ داخلہ بھی رہ چکے ہیں، نے کہا کہ اس فیصلے سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت کو قانون نافذ کرنے والے سویلین اداروں پر اعتماد نہیں تھا۔
انہوں نے کہا ’’ہمارے قانون نافذ کرنے والے ادارے امن و امان کو برقرار رکھنے کی کافی اہلیت رکھتے ہیں اور اس طرح کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے فوجی کی طلبی کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے چودہ اگست کو اسلام آباد میں پی ٹی آئی کے احتجاجی مظاہرے سے نمٹنے کے لیے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی تھی۔
انہوں نے کہا کہ اس طرح کے فیصلوں سے حکومت کے ناقدین کو فائدہ ہوگا اور اس کی ساکھ کوبُری طرح نقصان پہنچے گا۔
آفتاب شیرپاؤ نے کہا ’’پی ٹی آئی کے احتجاج سے حکومت کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے، اور حکمرانوں کو اس پر غیرضروری ردّعمل ظاہر نہیں کرنا چاہیٔے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی اپنے انتخابی وعدے پورے کرنے میں ناکام ہوچکی ہے، اور وہ اب وہ عوام کو درپیش مسائل سے توجہ ہٹانے کے لیے نان اشوز کو اُٹھارہی ہے۔
پیپلزپارٹی کے صوبائی صدر خانزادہ خان نے بھی اسلام آباد میں فوج کو طلب کیے جانے کے حکومتی اقدام کی سختی کے ساتھ مخالفت کی اور اس فیصلے کو حکومت کی مکمل ناکامی قرار دیا۔ انہوں نے وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنی ناکامی تسلیم کرتے ہوئے استعفےٰ دے دیں۔
انہوں نے کہا ’’اگر وزیرِ داخلہ اسلام آباد کو کنٹرول کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے تو وہ ملک کے حالات کو کس طرح کنٹرول کرسکتے ہیں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ ان کی پارٹى حکومت کی جانب سے لیے گئے اس طرح کے غیرجمہوری فیصلوں کی مخالفت کرے گی۔
خانزادہ نے کہا کہ ان کی پارٹی کسی بھی غیرجمہوری تحریک کی کبھی حمایت نہیں کی، اس لیے کہ پیپلزپارٹی نے ہمیشہ ملک میں جمہوریت کی مضبوطی کے لیے قربانیاں دی ہیں، لیکن اس کا مطلب ہرگز نہیں تھا کہ حکومت سیاسی جلسوں سے نمٹنے کے لیے فوج طلب کرلے گی۔
اس کے علاوہ پیپلزپارٹی کے رہنما نے پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان سے بھی کہا کہ وہ لانگ مارچ کی سیاست سے گریز کریں اور مل بیٹھ کر خیبرپختونخوا کے عوام کی خدمت پر توجہ مرکوز کریں۔
انہوں نے وفاقی حکومت سے بھی کہا کہ وہ ان مسائل کے حل پر اپنی توجہ مرکوز کرے، جن کا سامنا شمالی وزیرستان سے نقلِ مکانی پر مجبور ہونے والے افراد کررہے ہیں، اور انہیں تمام بنیادی سہولتیں فراہم کرے۔
خانزادہ نے کہا کہ موجودہ حکمران کو بے گھر افراد کے معاملے پر سیاسی نمبر نہیں بنانے چاہیٔیں بلکہ انہیں قومی جذبے کے ساتھ ان کی خدمت کرنی چاہیٔے۔
پاکستان مسلم لیگ قائد کے صوبائی صدر انتخاب خان چمکنی نے کہا کہ آرٹیکل 245 کا نفاذ بیرونی جارحیت اور جنگ کی سی صورتحال میں کیا جاسکتا ہے، لیکن موجودہ حالات میں اس طرح کا کوئی امکان نہیں ہے۔
انہوں نے کہا خیبر پختونخوا طویل عرصے سے جنگ کی سی صورتحال کا سامنا کررہا تھا، لیکن آرٹیکل 245 کا آپشن استعمال کرنے کی تجویز کبھی پیش نہیں کی۔
انتخاب خان چمکنی نے کہا کہ وفاقی حکومت نے پہلے عوام پر نئے ٹیکس نافذ کیے، پھر انہیں گیس اور بجلی کی لوڈشیڈنگ کا نشانہ بنایا اور اب آرٹیکل 245 نافذ کردیا گیا، جس کا مطلب یہ ہے کہ موجودہ حکمران چیلنجز کا سامنا کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے۔
ق لیگ کے رہنما نے کہا ’’ہم وفاقی حکومت کے اس فیصلے کی مذمت کرتے ہیں اور تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ متحد ہو کر ملک میں جمہوریت کی بقا کے لیے ایک حکمت عملی وضع کریں۔‘‘