تیزاب کے حملے، بلوچستان میں خواتین خوفزدہ
کوئٹہ: تیزاب کے حملے کی متاثرہ 35 سالہ نور جہاں، کوئٹہ کے میڈیکل کمپلیکس ہسپتال میں ٹوٹے ہوئے دل کے ساتھ ایک بیڈ پر لیٹی ہوئی تھیں، جہاں چند روز پہلے کوئٹہ کے کلی کمالو علاقے میں عسکریت پسندوں کی طرف سے ان پر تیزاب پھینکنے کے بعد لایا گیا تھا۔
غم اور دکھ کی اس گھڑی میں اس کے غم زدہ رشتہ دار ان کے بستر کے چاروں طرف جمع تھے، روایتی بلوچی کپڑے پہنے ہوئے، وہ انہیں دل سوز واقعے کے بارے میں بتا رہی تھی۔
نور جہاں نے جزبات سے بھرائی ہوئی آواز میں ڈان ڈاٹ کام کو بتایا کہ 'میں عید کی خریداری کر رہی تھی کہ اچانک کسی نے میرے چہرے پر تیزاب پھینک دیا'۔
بلوچستان میں گزشتہ تین روز میں کوئٹہ اور مستونگ میں تیزاب پھینکنے کے دو مختلف واقعات میں کم سے کم چھ خواتین زخمی ہو گئی ہیں۔
نور جہاں کے ساتھ دو نو جوان لڑکیوں سمیت دیگر پانچ متاثرین بھی بی ایم سی برن وارڈ میں زیر علاج ہیں جو خاموشی سے اپنا درد سہے رہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ‘خدا کا شکر ہے کہ میرے کپڑے تیزاب سے محفوظ رہے۔
ان کے غم زدہ والدین اور خوفزدہ خاندان کے ارکان ان کے گرد جمع تھے۔ تیزاب حملے سے متاثرہ تمام خواتین نے اپنے چہروں کو ڈھانپا ہوا تھا۔
ڈاکٹروں کے مطابق، نور جہاں کے تین فیصد چہرے کو حملے میں نقصان پہنچا تھا انہوں نے اپنے چہرے کو ڈھاپنے کے بعد ڈان ڈاٹ کام سے بات کرنے کے لیے رضا مندی ظاہر کی تاہم انہوں نے تصاویر لینے سے انکار کر دیا۔
نور جہاں نے کہا کہ 'میں جلد سے جلد اپنی حالت کی بہتری کے لیے دعا گو ہوں انہوں نے پوچھا کہ آیا علاج سے میرا چہرہ پہچانا جائے گا'۔ تیزاب سے ان کی شال اور کپڑے جل گئے تھے۔
ایک عینی شاہد نے اپنا نام صیغہ راز میں رکھنے کی درخواست پر ڈان ڈاٹ کام کو بتایا کہ حملے کے بعد وہاں چیخ و پکار سنائی دے رہی تھی۔
انہوں نے کہا کہ مارکیٹ میں تیزاب کے حملے کے بعد خواتین نے گھبرا کر چیخنا شروع کر دیا تھا۔
انہوں نے انکشاف کیا کہ کچھ دوسری خواتین کو بھی تیزاب کے زخموں کا سامنا کرنا پڑا تاہم انہوں نے ہسپتال میں علاج کے لیے آنے کو ترجیع دی۔
انہوں نے کہا کہ 'کاسمیٹکس فروخت دکانداروں نے اپنی دکانوں کے شٹر نیچے گرا دیئے تھے'۔
نور جہاں کی طرح دیگر تیزاب حملے کی متاثرین بھی نفسیاتی صدمے کا شکار ہیں۔
نور جہاں نے نے کہا کہ 'میں اس ہولناک لمحے کو کبھی بھول نہیں سکتی۔
معاشرے میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی اور عسکریت پسندی کے باعث فرقہ ورانہ تشدد اور جاری شورش سے دوچار بلوچستان میں خواتین کے حقوق کو ان واقعات سے مزید دھچکا لگا ہے۔
بلوچستان، پاکستان کے کم ترقی یافتہ صوبے میں گزشتہ ایک دہائی سے زائد عرصے سے تشدد جاری ہے جس میں ہزاروں افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
تیزاب کے دونوں حملوں کی کسی نے ذمہ داری قبول نہیں کی ہے، تاہم قانون نافذ کرنے والے ادارے حملہ آوروں کا پتہ لگانے میں سر گرم ہیں۔
وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا کہ 'یہ ایک وحشیانہ فعل ہے اور قصورواروں کو قانون کے کٹہرے میں لانا ضروری ہے'۔
وزیر داخلہ نے کہا کہ 'وزیر اعلٰی بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے تیزاب حملوں کی تحقیقات کا حکم دیا ہے۔ سینیئر پولیس افسران پر مشتمل ایک ٹیم کو واقعات کی تحقیقات کرنے کا فرض سونپا گیا ہے'۔
پریس کو جاری ایک بیان میں بگٹی نے کہا ہے کہ 'اس طرح کے وحشیوں کو بخشا نہیں جائے گا۔ اس طرح کے واقعات کی اسلام اور بلوچ روایات و اقدار میں وئی گنجائش نہیں ہے۔
ان حملوں پر خواتین اور انسانی حقوق کے گروپوں کی طرف سے شدید تنقید کی گئی ہے۔
عید کے قریب آتے ہی بلوچستان میں خواتین خریداروں پر دو تیزاب حملوں کی وجہ سے معاشرہ ہل گیا ہے۔
بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات آغا حسن بلوچ نے کہا ہے کہ 'بنیاد پرست ہمیں ڈرانا اور دہشت زدہ کرنا چاہتے ہیں'۔
ان خیالات کے اظہار انہوں نے ہسپتال کے اندر ایک احتجاجی مظاہرے کے دوران کیا جہاں تیزاب سے متاثرہ خواتین زیر علاج ہیں۔
درجنوں بلوچ قوم پرست ہسپتال کے اندر جمع تھے، انہوں نے بلوچستان میں خواتین کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکامی پر حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے خلاف زور دار نعرے لگائے۔
انہوں نے اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا کہ 'ہم سیکولر ہیں، بنیاد پرستی ہم پر مسلط کی جا رہی ہے'۔
کارکنوں نے کہا کہ بلوچستان میں گزشتہ تین سالوں میں خواتین پر سات تیزاب حملے کیے گئے ہیں۔
عورت فاؤنڈیشن کے مقامی ڈائریکٹر ہارون داؤد نے کہا کہ 'یہ واقعی ایک لمحہ فکریہ ہے'۔
انہوں نے بتایا کہ تمام واقعات میں، حملہ آوروں نے عورتوں کے چہرے پر تیزاب پھینکنے کے لیے سرنج کا استعمال کیا تھا۔
تمام کیسوں میں ، 'متاثرین کے خاندانوں نے کوئی ذاتی تنازعہ یا دشمنی کے تاثر کو مسترد کیا ہے. متاثرین میں سے ایک کے بھائی نے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا کہ 'ہمارا کسی کے ساتھ کوئی اختلاف نہیں ہے'۔
احمد نے کہا کہ 'میری بہن بے قصور ہے۔ خریداری کرتے ہوئے اس نے اپنے چہرے کو ڈھانپا ہوا تھا'۔
احمد نے بتایا کہ کلی کمالو میں نا معلوم عسکریت پسندوں کی طرف سے پمفلٹ تقسیم کیے گئے تھے جس میں خواتین کو گھروں سے نکلنے سے منع کیا گیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ 'کسی نے بھی اسے ایک سنگین خطرہ تصور نہیں کیا'۔
کوئٹہ اور بلوچستان کے دیگر شورش زدہ حصوں میں خواتین کے ساتھ اس طرح کے واقعات سنگین خطرہ بنے ہوئے ہیں۔
اس طرح کے حملے کی وجہ سے بلوچستان کے شورش زدہ علاقوں میں خواتین اپنے گھروں میں رہنے پر مجبور ہو گئی ہیں۔