پنڈی والوں کی ناراضگی کا ڈر
یوں تو رمضان کو امن کے مہینے کے طور پر جانا جاتا ہے، شاید یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم نواز شریف کے قریبی معاونین اور ساتھی یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ پارٹی قیادت کے فوجی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات بہتر ہیں۔
ان کے مطابق وزیراعظم نے ناراض فوجی قیادت کو راضی کرنے پر توجہ مرکوز کررکھی ہے۔
دوسرے الفاظ میں تجربہ کار نواز شریف اور ان کے مہم جو کسی بھی ایسے مسئلے کو طول دینے کے حق میں نہیں ہیں، جو پنڈی والوں کو ناراض کرسکتا ہو۔
کم از کم وہ جو سننے کے لیے تیار ہے، پاکستان مسلم لیگ اسے اپنا دکھڑا بیان کررہی ہے۔
پچھلے چند مہینوں میں کچھ حکومتی پالیسیوں نے فوجی قیادت کے لیے بظاہر خاصی حد تک بے چین کردیا تھا، جیسے کہ نواز شریف کا طالبان کے ساتھ امن مذاکرات پر اصرار۔
تاہم دیگر معاملات نے ان مسائل میں اضافہ کردیا تھا، مثلاً مشرف کے معاملے میں حکومت کی ضد (ان کی ملک چھوڑنے کے لیے کوششوں کی مخالفت کے ساتھ ساتھ ان پر غداری کا مقدمہ جاری ہے۔) جیو ٹی وی کے لیے اس کی حمایت (جس نے انٹری سروسز انٹیلی جنس پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ اس کے اینکر حامد میر کو قتل کرنے کی کوشش کررہی ہے۔) ایک اور معاملہ جس کے بارے میں کہا گیا تھا کہ خواجہ آصف نے فوج کے خلاف اس وقت گرما گرما بیانات دیتے تھے جب مشرف پر فردِ جرم عائد کی گئی تھی۔
حکمران جماعت کے ایک عہدے دار جو اعلٰی قیادت سے قریب ہیں، نے ڈان کو بتایا ’’حکومت لائن سے ہٹ گئی تھی، مستقبل میں محاذ آرائی سے گریز کیا جائے گا۔‘‘
انہوں نے زور دیا کہ پارٹی کے اعلٰی عہدے دار جو فوج کو سولین کی بالادستی کا پیغام بھیجنے کے حق میں تھے، انہوں نے بھی یہ حقیقت جان لی ہے کہ بڑھتے ہوئے دباؤ کا سامنا کرنے سے احتیاط سے چلنا بہتر ہے۔
کچھ ٹیلی ویژن اینکروں کی پیش گوئیوں سے اتفاق ہے، ان میں سے ایک کہتے ہیں ’’جیسا کہ عمران خان دوبارہ گنتی اور انتخابی اصلاحات کے اپنے مطالبے کے سامنے حکومت کی گردن جھکانے کی کوشش کررہے ہیں، اور طاہر القادری طیش کے عالم میں ہیں، مسلم لیگ نون کا یہ سوچنا مناسب ہے کہ فوج کے ساتھ تعلقات کو درست کیا جائے۔‘‘
سولین اور فوجی قیادت کے مابین تعلقات کے اردگرد دھند چھائی ہوئی ہے، اس لیے اس طرح کے معاملات کی عوامی سطح پر تصدیق کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔
تاہم فوجی حکام یہ تسلیم کرنے کے لیے تیار ہیں کہ تعلقات کو درست کرنے کے لیے کچھ کوششیں کی گئی ہیں۔
ان میں سے ایک شمالی وزیرستان میں آپریشن کا آغاز ہے، اور فوج کا اس پر کنٹرول اشارہ کرتا ہے کہ حکومت نے دہشت گردی اور قومی سلامتی کے معاملات کو تسلیم کرلیا ہے۔
ایک حاضر سروس فوجی اہلکار، جو دونوں فریقین کی ملاقاتوں میں شریک رہے تھے، انہوں نے سترہ جولائی کو وزیراعظم کے جی ایچ کیو کے دورے کا حوالہ دیا۔
نواز شریف کا فوجی ہیڈکوارٹر کا یہ دورہ چار گھنٹے طویل تھا۔ مذکورہ اہلکار نے کہا کہ اس قدر طویل دورہ سردمہری کی برف پگھلے بغیر ممکن نہیں تھا۔
وزیردفاع خواجہ آصف، وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان، قومی سلامتی کے لیے وزیراعظم کے مشیر سرتاج عزیز اور وزیراعظم کے خصوصی معاون طارق فاطمی ان کے ہمراہ تھے۔
اس سےپہلے نو جولائی اور سترہ جولائی کو چیف آف دی آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف نے وزیراعظم کے ساتھ ملاقات کی تھی، وزیراعظم کے جی ایچ کیو کے دورے سے پہلے فوج نے انہیں باضابطہ طور پر دعوت دی تھی۔
فوجی اہلکار نے کہا ’’اگرچہ ان ملاقاتوں میں شمالی وزیرستان میں جاری فوجی آپریشن پر توجہ مرکوز رہی تھی، تاہم ان دونوں نے اس کے ساتھ ساتھ دیگر مسائل پر بھی تبادلہ خیال کیا ہوگا۔‘‘
جنرل مشرف کے حوالے سے مسلم لیگ نون کے ذرائع کا کہنا ہے کہ ان کا مقدمہ پہلے سپریم کورٹ میں زیرِ سماعت ہے اور اگر عدالت سابق ڈکٹیٹر کا نام ای سی ایل سے خارج کرکے انہیں سہولت فراہم کرتی ہے تو حکومت اس کا مقابلہ نہیں کرے گی۔
یاد رہے کہ جون کے وسط میں سندھ ہائی کورٹ نے ریٹائیرڈ جنرل پرویز مشرف کی درخواست کو قبول کرتے ہوئے حکم دیا تھا کہ انہیں بیرون ملک سفر کی اجازت دی جائے، لیکن حکومت نے سپریم کورٹ میں اس حکم کے خلاف اپیل دائر کردی تھی۔
مسلم لیگ نون کے ایک عہدے دار کا دعویٰ ہے کہ یہ اپیل نواز شریف اور وزیرِ داخلہ چوہدری نثار کے درمیان اختلافات کا ایک سبب تھی۔
خواجہ آصف جو وزیردفاع کا اضافی قلمدان ان کے پاس موجود رہے گا، مسلم لیگ میں سے کچھ لوگ یہ دلیل دیتے ہیں کہ حالیہ ہفتوں میں خواجہ آصف مسلح افواج کے ایک کٹر محافظ کے طور پر اُبھر کر سامنے آئے ہیں۔ انہوں نے پے درپے ایسے انٹرویوز دیے، جن میں انہوں نے مسلح افواج کی تعریف کی تھی۔
تاہم کچھ کا اب بھی یہ کہنا ہے کہ اگر انہیں فوج کی جانب سے اشارہ ملا تو فضا صاف کرنے کے لیے انہیں تبدیل بھی کیا جاسکتا ہے۔
اب بھی کسی حدتک یہ بات غیر واضح ہے کہ جیو سے متعلق حکومت اور فوج کا مؤقف یکساں ہے۔
حکمران جماعت کے ذرائع کا کہنا ہے کہ لگتا ہے کہ یہ مسئلہ اب حل ہوگیا ہے، جیسا کہ اس نیوز چینل کو ایک کروڑ روپے کا جرمانہ عائد کیا گیا تھا اور پندرہ دن کے لیے اس چینل کو بند کرنے پر مجبور کیا گیا۔ اب یہ وقت ہی بتائے گا کہ فوج مطمئن ہوگئی ہے۔
یہاں تک کہ اگر اس معاملے پر دونوں فریق متفق بھی ہوں تو یہ نہیں کہا جاسکتا کہ سیاسی حکومت اور فوج ہمیشہ ایک دوسرے کے ساتھ خوش رہیں گی۔
یہ تعلقات ہمیشہ سے ہی تناؤ زدہ رہے ہیں۔ اب یہ دیکھنا ہوگا کہ حکومت ان تعلقات کو کیسے سنبھالتی ہے اور کشیدگی کا کوئی بھی ممکنہ نکتہ تو نہیں اُبھر آئے گا۔
تبصرے (1) بند ہیں