• KHI: Zuhr 12:17pm Asr 4:09pm
  • LHR: Zuhr 11:47am Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 11:52am Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:17pm Asr 4:09pm
  • LHR: Zuhr 11:47am Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 11:52am Asr 3:27pm

ہے کوئی مدد کرنے والا؟

شائع July 21, 2014
جس ملک میں انسانوں کی عزت نہ ہو، وہاں دوسرے مسائل پر وقت ضائع نہیں تو اور کیا کیا جا رہا ہے!
جس ملک میں انسانوں کی عزت نہ ہو، وہاں دوسرے مسائل پر وقت ضائع نہیں تو اور کیا کیا جا رہا ہے!

اتوار کا دن تھا۔۔۔۔ آفس کی چُھٹی تھی۔۔۔۔ ذہن پُرسکون تھا۔۔۔ کوئی خاص کال بھی نہیں آئی تھی۔۔۔ ہمارے کام کی نوعیت ایسی ہے کہ چُھٹی والے روز بھی ٹیلی فون پر کام چلتا رہتا ہے لیکن آج کا دن واقعی غنیمت تھا۔۔۔ میں کچھ دوستوں کے ساتھ اپنے گھر کے باہر خوبصورت شام انجوائے کر رہا تھا۔۔۔ یہ وہ وقت ہے جس سے مجھے لڑکپن سے ہی عشق ہے۔۔۔ یہاں وہاں کی باتیں چل رہیں تھیں۔۔۔ اور پھر وہ ہوا جس نے مجھے جھنجھوڑ کہ رکھ دیا۔۔۔

اچانک ایک موٹرسائیکل ہمارے سامنے آکر رُکی۔۔۔ دوستوں کے چہرے پر کچھ عجیب سی کیفیت دیکھ کر میں نے گردن گھمائی تو ایک ادھیڑ عمر شخص کو اپنے سامنے پایا۔۔۔۔ دل سے یہ خوف تو جاتا رہا کہ کوئی موبائل اسنیچر نازل ہوگیا ہے۔۔۔ میلی سی شلوار قمیض پہنے اس شخص کی آنکھوں سے غم چھلک رہا تھا۔۔۔ وہ شاید غصہ میں تھا یا شرمندگی میں۔۔۔ یا پھر اس کی شخصیت پر غربت کا سایہ تھا ۔۔۔ ہم سارے دوست یہ سوچ رہے تھے کہ یہ حضرت کون ہیں۔۔۔ جو بغیر کسی حوالے کے ہماری محفل میں گھس گئے ہیں۔۔۔ پھر وہ ہم سے مخاطب ہوا۔۔۔۔ اور ہم باتیں چھوڑ کر اُسےسننے لگے۔۔

بھائی میں دور دراز سے آیا ہوں۔۔۔ اسٹیل ٹاؤن کے پاس رہتا ہوں۔۔۔ یہاں کسی سے ملنے آیا تھا۔۔۔ انہوں نے معذرت کرلی ہے۔۔۔ مشکل میں ہوں۔۔۔ مدد کا نہیں کہہ رہا۔۔۔ کچھ مشورہ ہی دے دیں۔۔۔

میں ایک مستحق ہوں۔۔۔ بھیک نہیں مانگ رہا۔۔۔۔ زکوٰۃ اور راشن وغیرہ کے سلسلے میں یہاں آیا تھا۔۔۔ کسی کی سفارش بھی لایا ہوں۔۔۔ لیکن پھر بھی کام نہیں بن پا رہا۔۔۔۔ بھائی آپ لوگ کسی ایسے شخص یا فلاحی ادارے کو نہیں جانتے جو حقیقی مستحق کو بنا ذلیل کئے راشن دے دے؟

یہ باتیں بتاتے ہوئے اُس کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے ۔۔۔ اپنی جیب میں رکھا ایک وزیٹنگ کارڈ دکھاتے ہوئے کہنے لگا۔۔ بھائی اِن صاحب کا کارڈ دیکھ لیں۔۔۔ اپنی آنکھوں سے پڑھ لیں کیا لکھا ہے۔۔۔ یہ اچھے بھلے انسان ہیں۔۔۔ لکھ کر بھی دے دیا کہ میں مستحق ہوں۔۔۔ میری مدد کی جائے۔۔۔۔ پھر بھی مجھے خالی ہاتھ لوٹا دیا گیا ہے۔۔۔ اور ایک نہیں دو جگہوں سے۔۔۔ اب نہیں ہمت بھیک مانگے کی تو کیا کروں؟ گھر میں بچے ہیں۔۔۔ دو جوان بیٹے مر گئے۔۔۔ کیا میں بھی مر جاؤں؟ کوئی اور حل نہیں اس غربت کا؟

میں ایک طرف اسے سمجھانے لگا۔۔۔ اور دوسری طرف اپنے بھانجے کو اشارہ کر کے گھر میں رکھے اپنے پرس سے کچھ پیسے منگوانے لگا۔۔۔ پیسے آئے تو خاموشی سے اس کے ہاتھ میں پکڑا کر یہ سوچنے لگا کہ غریب ہے۔۔۔۔ ضرورت پوری ہونے پر چلا جائے گا۔۔۔ لیکن وہ رُکا رہا۔۔۔ اور عاجزانہ لہجے میں کہنے لگا۔۔۔۔ بھائی اگر پانچ منٹ اور بات کرلوں تو بُرا تو نہیں مانیں گے؟ غربت میں تو کوئی بات سُننے کو بھی تیار نہیں ہوتا۔۔۔ ایک وقت تھا جب بڑے بڑے میرے آگے پیچھے گھومتے تھے۔۔۔ لیکن وہ غلط رستہ تھا۔۔۔ یقیناً اس میں عیاشی تھی۔۔۔ لیکن قلب کا سکون اِس زندگی میں ہے۔۔۔

وہ موٹرسائیکل میں لگی فائل میں سے ایک اور کارڈ دکھاتے ہوئے کہنے لگا۔۔۔ بھائی میں ایک چھوٹے موٹے اخبار کا صحافی تھا۔۔۔ گھر میں کسی چیز کی کمی نہیں تھی۔۔۔ ہم تو وہ لوگ تھے جو پولیس تک سے رشوت لیا کرتے تھے۔۔۔ ہمارا رعب تھا۔۔۔ جہاں جاتے لفافے ہی لفافے ہوتے تھے۔۔۔ یہ چھوٹے اخبار لوگوں کی نظر میں بیکار ہونگے۔۔۔ لیکن ہم نے اسی سے لاکھوں روپے بنائے۔۔۔ اپنی گاڑی تھی۔۔ گھر میں ہر قسم کا سامان تھا۔۔۔ بچوں کے لئے نئے کمپیوٹرز تھے۔۔۔ سچ کہوں تو بڑے مزے تھے۔۔۔ لیکن پھر حالات بدلے۔۔۔ دو جوان بیٹے دنیا سے چلے گئے۔۔۔ اور ایسی کمر ٹوٹی کہ دوبارہ ہمت نہ ہوئی۔۔۔

جن ہاتھوں سے اپنے اولادوں کو حرام کھلایا تھا۔۔۔ انہی ہاتھوں سے انہیں دفنایا۔۔۔۔ اور دل میں ایسا غم بیٹھا کہ حرام سے کمائی چیزیں خود اپنے ہاتھوں سے جلا ڈالیں۔۔۔ توبہ کی۔۔۔ اور عہد کرلیا کے بھوکا مر جاؤں گا لیکن غلط کام نہیں کروں گا۔۔۔ لیکن بھائی اب مجھے ہر لمحہ امام حیسن کا وہ قول یاد آتا ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ۔۔۔ حق کہ رستے پر چلنے کی سب سے بڑی سختی یہ ہے کہ انسان تنہا رہ جاتا ہے۔۔۔

میرے بھائی اس ملک میں غریبوں کی مدد کرنے والے نجانے کتنے ہی فلاحی ادارے ہیں۔۔۔ ٹی وی پر دیکھیں تو اشتہار چلائے جاتے ہیں فطرہ زکوٰۃ کے۔۔۔ لیکن میں در در کی ٹھوکریں کھاتا پھر رہا ہوں۔۔۔ کوئی نہیں ہے جو عزت کے ساتھ مستحق سمجھ کے مدد کردے۔۔۔ کوئی کہتا ہے راشن ختم ہوگیا۔۔۔۔ کوئی کہتا ہے رمضان کے آخری عشرے میں آجانا۔۔ لیکن مدد کوئی نہیں کرتا۔۔۔ میرے گھر میں تو آج افطار خریدنے کے پیسے نہیں تھے۔۔۔ کسی سے ادھار لے کر بائیک میں پیڑول ڈلوایا۔۔۔ اور اس آسرے پر یہاں آیا کہ کچھ سامان مل جائے۔۔۔

بھائی خدا بھلا کرے آپ کا جو آپ نے آج کا بندوبست کردیا۔۔۔ اگر ممکن ہو اور کسی ادارے میں سفارش لگا سکیں تو مجھے راشن دلوادیں۔۔۔۔ ہمارے ملک میں تو بغیر سفارش غریبوں کو راشن بھی نہیں ملتا۔۔۔ آپ ہی بتائیں اور کیسے یقین دلواؤں؟ گھر آکر بھوکے بچے دیکھ لو۔۔۔۔ اب اس میں میرا کیا قصور کہ میرا گھر دور ہے۔۔۔ شناختی کارڈ رکھ لو۔۔۔ میری حالت اور آنسوؤں پر یقین نہیں تو کیا میرے پھٹے پُرانے کپڑے اور ٹوٹی چپلیں بھی جھوٹی ہیں؟ یقین کیسے آتا ہے اِن لوگوں کو۔۔۔؟

بھائی بھیک نہیں مانگ سکتا۔۔۔۔ اللہ نے ہمت نہیں دی۔۔ لیکن چھوٹا موٹا کام کرتا ہوں۔۔۔ مشکل وقت ہے بھائی۔۔۔ دعا کرنا حلال روزی کھلاتا رہوں بچوں کو۔۔۔ اس زمانے میں ہم جیسوں کی نہ عزت ہے نہ اہمیت۔۔۔ ہم جیسے لوگ تو بس معاشرے پر بوجھ ہوتے ہیں۔۔۔ جن کا ہونا تکلیف کا باعث ہوتا ہے۔۔ معذرت میرے بھائی آپ سب کا کافی وقت لیا میں نے۔۔ بس کوئی ہے نہیں سننے والا۔۔۔ تو دل کا بوجھ ہلکا کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔۔۔ خدا سلامت رکھے آپ کو۔۔۔

وہ تو اپنا موبائل نمبر لکھوا کر چلا گیا۔۔۔ اس امید پر کہ شاید ہم اس کے بچوں کے لئے راشن کا بندوبست کراسکیں۔۔۔ لیکن میں ابھی تک اس کرب میں مبتلا ہوں کہ حکومتِ وقت کن مسائل کو حل کرنے کی کوشش کر رہی ہے؟ اصل مسئلہ تو وہ بھول چکی ہے۔۔۔ جس ملک میں انسانوں کی عزت نہ ہو۔۔۔ وہاں دوسرے مسائل پر وقت ضائع نہیں تو اور کیا کیا جا رہا ہے!


لکھاری ڈان نیوز ٹی وی کے ایگزیکیٹو پروڈیوسر اور پروگرم اینکر ہیں

صادق رضوی

صادق رضوی ڈان نیوز میں اینکر اور ایگزیکٹو پروڈیوسر ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (6) بند ہیں

Kamran Fasih Jul 21, 2014 11:45am
حکومتِ وقت کن مسائل کو حل کرنے کی کوشش کر رہی ہے؟ اصل مسئلہ تو وہ بھول چکی ہے۔۔۔ جس ملک میں انسانوں کی عزت نہ ہو۔۔۔ وہاں دوسرے مسائل پر وقت ضائع نہیں تو اور کیا کیا جا رہا ہے! Respectfully sir normal beggars take home is about Rs.800/- and the pic attached a person collecting garbage taking about Rs.500/- every day. in my opinion building roads and bridges is also helping poor peoples gracefully, It is better to built new projects ( give wages) then to give Rs.1500 ( Bainazeer Income support plane )
Zara Ali Jul 21, 2014 05:56pm
@Kamran Fasih: کامران صاحب کاش آپ کو پتہ ہوتا کہ پاکستان کی 80 فیصد آبادی غربت کی صطح سے نیچے رہتی ہے۔۔۔ کروڑوں میں سے اگر چند ہزار افراد کو پلوں اور سڑکوں کی تعمیر سے روزگار ملتا ہے تو تب بھی وہ کروڑوں لوگ بھوکے اور بےروزگار ہی سوتے ہیں۔
Sohail Anwar Jul 21, 2014 07:49pm
Dear Sadiq, Could you please provide his contact number, so I can help him out. My email is: [email protected] Contact : +968-97845783 Thanks & kind regards, Sohail.
kamran Jul 22, 2014 12:51pm
@Zara Ali: Problems raised in above column 1) People low standard of living. 2) No respect solution given by Mr. Sadiq Rizvi 1 ) giving charity 2) Regulating and strengthening charitable organizations My opinion is that we can raise standard of living and respect through firstly strengthening Infra structure ( Rail, Roads, Air transport), Secondly by Development of commerce and Industry/ agriculture and then SAY NO TO EXCEPT CHARITY - SUBSIDIES - LOANS.
Zara Ali Jul 22, 2014 02:59pm
@kamran: کیا کوئی غریب جو دن میں ایک وقت کی روٹی نہیں خرید سکتا وہ ریل، جہاز اور بسوں کے ٹکٹ خرید سکتا ہے؟ بات ایسی کی جائے جس کا سر اور پیر ہو یا کم از کم صرف سر یا پیر ہو تو اچھا لگے گا۔
kamran Jul 22, 2014 03:40pm
@Zara Ali: A poor person can built the road and get wages, one can design and get salary, can work in cement factory get salaries and wages. I am talking about the persons working in construction of infrastructure. Infrastructure is mother of all development. this is only way to feed 100 million. for feeding 100 M people we have to start with somewhere. I my view this is the best and honorable way to raise the slandered of living of general public. If you disagreed then suggest me the best way out. first priority of the government should prepare infrastructure. there is a quotation " make roads, development will automatically reached"

کارٹون

کارٹون : 14 نومبر 2024
کارٹون : 13 نومبر 2024