پیپلزپارٹی کا جوابی حملہ
ووٹوں کی دوبارہ گنتی کے لیے پاکستان تحریک انصاف کا مطالبہ، طاہر القادری کی غضبناکی (جس کی وضاحت کے لیے صرف اسٹیبلشمنٹ اور خفیہ ہاتھ کی سازشوں کا حوالہ دیا جاتا ہے) اور پاکستان مسلم لیگ نواز (پی ایم ایل این) کی مصیبتیں (جو خود ان کی ہی پیدا کردہ ہیں) اب پرانی خبریں ہوچکی ہیں۔
پھر نئی خبر کیا ہے؟ بہر کیف پاکستان پیپلزپارٹی نے تازہ ترین دھماکہ کردیا ہے۔
سابق صدر آصف علی زرداری نے دبئی سے اپنی خاموشی کو اچانک توڑ دیا ہے اور چار یا زیادہ انتخابی حلقوں میں ووٹوں کی دوبارہ گنتی کے لیے پی ٹی آئی کے مطالبے کی حمایت کے ساتھ سامنے آئے ہیں، اور اس کے ساتھ وزیراعظم نواز شریف کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
یہ انتہائی سخت بیان تھا، جس میں سابق صدر نے کہا تھا کہ ’’اگر (پی ٹی آئی کا دوبارہ گنتی کا مطالبہ) تسلیم کرلیا جائے تو آسمان نہیں گر پڑے گا۔‘‘
اس کے بعد انہوں نے کہا کہ عوام نے نواز شریف کو بطور وزیراعظم منتخب کیا تھا، نہ کہ مطلق العنان اختیارات کے ساتھ بطور ایک بادشاہ کے، تاکہ وہ صوبوں کے معاملات میں مداخلت کریں۔
سینیٹر فرحت اللہ بابر نے یہ بیان جاری کیا تھا، انہوں نے اس تصور کو مسترد کردیا کہ زرداری کے حمایتی بیان کا مطلب یہ ہے کہ پیپلزپارٹی عمران خان کے لانگ مارچ میں شامل ہونے کے لیے تیار ہے۔
انہوں نے کہا کہ زرداری نے اپنے بیان میں دو اہم حقائق کا ذکر کیا ہے، اوّل یہ کہ پیپلزپارٹی نے گزشتہ عام انتخابات کے نتائج کو جمہوریت کی خاطر تسلیم کیااور دوسرے اس لیے بھی قبول کیا کہ عوام نے نواز شریف کو اپنا وزیراعظم منتخب کیا ہے۔
فرحت اللہ بابر نے کہا کہ کچھ لوگ اس بیان کا غلط اندازہ لگارہے ہیں۔ تاہم ان کی اس بےضرر سی وضاحت کو ہر ایک نے قبول نہیں کیا گیا ہے۔
یقیناً مسلم لیگ نون زرادری کے اس دھماکے کو کراچی آپریشن کے پر اسلام آباد اور سندھ کے مابین جاری کشیدگی کے حوالے سے دیکھے گی۔
ایک سرکاری عہدے دار کے مطابق سندھ میں نئے انسپکٹر جنرل آف پولیس کی تقرری پر پیدا ہونے والے تنازعے نے پیپلز پارٹی کو مشتعل کردیا ہے۔
صوبائی حکومت نے حال ہی میں جس آئی جی کو برطرف کیا تھا، ان کے بارے میں رپورٹ دی گئی تھی کہ وہ کچھ مشکوک ہتھیاروں کی مبینہ خریداری کے معاہدے کے خلاف تھے، جسے پیپلزپارٹی کی جانب سے آگے بڑھایا گیا تھا۔
آئی جی کی برطرفی کے بعد سے وفاقی حکومت کے حکام اس دعوے کو درست ثابت کرنے کی کوشش کررہے تھے کہ صوبائی حکومت کے ان اقدامات کی وجہ سے کراچی میں آپریشن سست ہوگیا ہے۔
اس کے علاوہ وفاقی حکومت کو اس آفیسر پر بھی اتفاق نہیں ہے، جسے سندھ حکومت نیا آئی جی مقرر کرنا چاہتی ہے۔
وزیراعظم کے ایک اعلٰی سطح کے معاون نے دعویٰ کیا کہ ’’امید ہے کہ یہ معاملہ جلد ہی حل ہوجائے گا۔‘‘
تاہم دیگر لوگ سابق صدر کے بیان کو عارضی تعطل کے نتیجے کے طور پر دیکھنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
پیپلزپارٹی کے ایک سرگرم رکن جو سابق صدر کے قریب رہ کر کام کرچکے ہیں، زرداری کے بیان کو اس بات کا ثبوت قرار دیتے ہیں کہ قومی اسمبلی میں حزبِ اختلاف کی مرکزی جماعت اب اپنا کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے۔
بلاشبہ پیپلزپارٹی پارلیمنٹ میں حزبِ مخالف کی سب سے بڑی جماعت ہے، اس نے اب تک ایوان میں انتہائی شائستہ کردار ادا کیا ہے۔
بہت سے لوگوں کے لیے یہ حیران کن امر ہے، اس لیے کہ پیپلزپارٹی نے جب بھی حزبِ اختلاف کا کردار ادا کیا ہے، ہمیشہ اپنے بہترین کردار کی وجہ سے جانی جاتی ہے۔
لیکن اس تبدیلی کے بارے میں پیپلزپارٹی کے رہنما کا کیا خیال ہے۔
انہوں نے وضاحت کی کہ سابق صدر کا بیان کافی بحث و تمحیث کے بعد سامنے آیا ہے اور اب تک پیپلزپارٹی نے جس قدر اطاعت کا مظاہرہ کیا ہے، پارٹی کے اندر اس کے حوالے سے عدم اطمینان پایا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پیپلزپارٹی کے بہت سے سینئر رہنماؤں نے پیپلزپارٹی کی قیادت کو اپنی تشویش سے آگاہ کیا تھا۔ زرداری اور بلاول بھٹو کے ساتھ ہونے والے بہت سے اجلاسوں کے دوران پارٹی کے رہنماؤں نے دونوں کو بتایا تھاکہ اگر پارٹی پی ٹی آئی کو نون لیگ کی مخالفت میں جگہ دیتی رہی تو پیپلزپارٹی کے لیے پنجاب میں 2013ء کی شکست سے نمٹنا مشکل ہوجائے گا۔
دراصل پیپلزپارٹی کے پنجاب کے اراکین کی مایوسی اب ڈھکی چھپی نہیں رہی۔ ان میں سے بہت سے جنہیں 2013ء کے انتخابات میں شکست ہوئی تھی، اس حوالے سے اپنی مایوسی کے احساس کو کھلے بندوں بیان کررہے ہیں، کہ صوبے میں پارٹی کی کمزوری کو دور کرکے اس کو مضبوط بنانے کی ضرورت ہے، اس لیے کہ یہاں تحریک انصاف مسلم لیگ نون کی مخالفت کرکے تیزی سے ابھرتی جارہی ہے۔
پیپلزپارٹی کے ایک سابقہ رکن قومی اسمبلی نے ڈان کو بتایا کہ جولائی کے پچھلے ہفتے کے دوران کراچی میں منعقدہ ایک اجلاس میں ہم نے پارٹی کے سینئر رہنماؤں کو دو ٹوک انداز میں واضح کردیا تھا کہ اگر پارٹی کی یہ سیاست تبدیل نہیں ہوئی تو پیپلزپارٹی اس صوبے سے ختم ہوجائے گی۔
ان کے مطابق پارٹی کی قیادت کو بتایا گیا تھا کہ اس وقت جبکہ پنجاب کی تمام سیاسی جماعتیں (پی ٹی آئی، پی ایم ایل کیو اور دیگر) مسلم لیگ نون کے لیے حزبِ اختلاف کا بہترین کردار ادا کررہی ہیں، جبکہ پیپلزپارٹی اس منظر سے بالکل غائب ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس اجلاس میں پارٹی قیادت نے پنجاب میں پارٹی کو خصوصی توجہ دینے پر اتفاق کیا تھا۔
اسی دباؤ کے تحت پارٹی کی قیادت کو حالیہ دنوں میں ایک سے زیادہ بیان جاری کرنے پر مجبور ہونا پڑا، جو مسلم لیگ نون کی پریشانی کا سبب بنے۔
بعض مبصرین ریٹائیرڈ جنرل پرویز مشرف پر یوسف رضا گیلانی کے بیان کو بھی اسی عمل کے حصے کے طور پر دیکھ رہے ہیں، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ مشرف کو ایک معاہدے کے بعد ملک چھوڑنے کی اجازت دی تھی، جس میں حکمران جماعت بھی شامل تھی۔
تاہم یہ نہیں کہا جاسکتا کہ پیپلزپارٹی کسی حکومت مخالف اتحاد کا حصہ بن جائے گی یا اس کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کرے گی۔
پیپلزپارٹی کے ایک رہنمانے وعدہ کیا کہ لیکن مسلم لیگ نون کو ہدف بنانے والے مزید بیانات کی توقع ہے۔
صرف ایک امید کی جاسکتی ہے کہ اگر پیپلزپارٹی اپنے ذمے کا فطری کرادر ادا کرنے کے لیے بالآخر تیار ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ کم از کم پارلیمانی اجلاس زیادہ دلچست ہوں گے، جو اس وقت کافی سست ہوگئے ہیں۔