پرواز بِنا جہاز
دفتری کام کے سلسلے میں اکثر اسلام آباد جانے کا اتفاق ہوتا ہے۔ پچھلے دنوں بھی ایسا ہی اتفاق ہوتے ہوتے رہ گیا۔ ایمرجنسی میں دارلحکومت جانے کا پلان بنا۔ شام کے پانچ بجے تھے اور کام صبح صبح شروع ہوجانا تھا۔ جلدی جلدی ٹریول ڈیسک کو فون کیا۔ کچھ ہی دیر میں ایڈمن آفیسر میرے کمرے میں کھڑا تھا۔ زبان پر ایک ہی بات تھی کہ شام سات بجے کے بعد اسلام آباد جانے کے لئے کوئی فلائٹ ہی نہیں۔ آخری پرواز اگلے ڈیڑھ گھنٹے بعد یعنی سات بجے ہے۔ اگر جا سکتے ہیں تو ائیرپورٹ کے لئے فوراً نکل جائیں۔
آفس سے ہوائی اڈے کا راستہ ہی گھنٹے بھر کا تھا اور شام کے اس وقت جب ہر کسی کو دفتر سے گھر جانے کی جلدی ہوتی ہو ائیر پورٹ وقت پر پہنچنا ممکن ہی نہیں تھا۔ اوپر سے کپڑے وغیرے کیا خود بکسے میں بند ہو کر میرے ساتھ فلائیٹ پکڑنے پہنچ جاتے؟
ان چند عجیب و غریب خیالوں کے ساتھ میں نے پوچھا کہ اگلی پرواز کب ہے؟ جواب آیا صبح سات بجے۔ یعنی ساری رات کوئی فلائٹ ہی نہیں؟ میں بڑبڑاتے ہوئے کمرے سے اٹھا۔ سموک ایریا پہنچا۔ سگریٹ سُلگائی اور ہمیشہ کی طرح اُلٹے سیدھے خیالات میں کھو گیا۔
سوچ میں آسٹریلیا کا نظام تھا۔ ہر پندرہ منٹ بعد بڑے شہروں کے لئے پروازیں یاد آنے لگیں۔ میلبرن سے سڈنی، سڈنی سے اڈیلیڈ، اڈیلیڈ سے پرتھ، کینبرا۔۔۔۔ گولڈ کوسٹ۔۔۔ پتا نہیں سوچ کہاں سے کہاں نکلی جا رہی تھی۔
آبادی دیکھو آسٹریلیا کی، سوا دو کروڑ! اتنے لوگ تو صرف اپنے کراچی میں رہتے ہیں۔ پھر بھی آسٹریلیا کی چار بڑی ائیرلائنز کے پاس چار سو سے ذیادہ جہاز ہیں۔ اور باقی کی تین درجن کے قریب چھوٹی ائیر لائنز کے بیڑے اس کے علاوہ ہیں۔ ٹکٹ بھی پچاس ڈالر یعنی پانچ ہزار روپے کے آس پاس مل جاتا ہے، پروازیں بھی مقررہ وقت پر اُڑتی ہیں، مسافروں کا خیال بھی رکھا جاتا ہے۔
دوسری جانب ہمارا پیارا وطن۔۔۔۔ اور ہماری جان سے پیاری قومی ائیر لائن۔۔۔ بیس کروڑ کی آبادی والے ہمارے مملک کے شہریوں کے لئے قومی ائیرلائن کے پاس صرف پچیس جہاز رہ گئے ہیں --خدا جانے اُن میں سے بھی کتنے اُڑان بھرنے کے قابل ہونگے-- کُل ملا کر ملک کی چار بڑی ائیرلائنز کے پاس محض پچاس کے قریب ہوائی جہاز ہیں جو کہ بیس کروڑ کی آبادی کے لئے کتنے ذیادہ ہیں اس کا اندازہ آپ حضرات خود لگا سکتے ہیں۔۔۔۔
ایک طرف بیچارہ آسٹریلیا اپنے شہریوں کے قلبی سکون کے لئے ہر قسم کے پاپڑ بیل رہا ہے۔ اور ایک طرف یہ ہمارے حکمران۔۔۔۔ ان کا بس چلے تو باقی بچے جہازوں کو یا تو اپنے ذاتی استعمال میں لے آئیں یا بیچ باچ کے قصہ ہی ختم کرڈالیں۔
ہوش آیا تو اپنے کمرے کی جانب لوٹا۔ اخبار کھولا تو ایک خبر نظر سے گزری۔ شاید میری مَت ماری گئی تھی۔ خبر کا تعلق اُسی گلی محلے سے تھا جہاں سے میں ابھی ابھی ہو کر آیا تھا۔ معمول کی طرح پڑھ کردُکھ ہوا۔ اور دُکھ کیوں نا ہوتا، دنیا جہاں میں سفر کرنے والے انسان کو ہوائی جہازوں کی اہمیت کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے اور جب آپ کو یہ پتا چلے کہ آپ کی اپنی قومی ائیرلائن صرف چند جہازوں کے ساتھ زندہ ہے تو دکھ کی شدت میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ اور جب آپ کو یہ پتا چلے کہ اب دنیا کی مزید چارائیرلائنز پی آئی اے کو لیز پر بھی جہاز دینے کو تیار نہیں تو دکھ غم کی شکل اختیار کرجاتا ہے۔
ہم دنیا کے ترقی یافتہ ممالک سے ز یادہ کرایہ بھی ادا کرتے ہیں، مشکلات کا سامنا بھی کرتے ہیں، ذلت بھی اُٹھاتے ہیں، پھر بھی ہمیں ایک دو کروڑ کی آبادی والے شہر سے دوسرے بڑے شہروں تک ہوائی سفر کے لئے بارہ بارہ گھنٹے انتظار کرنا پڑتا ہے۔ شکر ہے میرا تو دفتری کام تھا، منسوخ کردیا گیا۔ لیکن اُن لوگوں کا کیا جو ذاتی اور فیملی ایمرجنسی کے کرب کو سہتے ہونگے اور اگلی صبح تک آسمان کا منہ تکتے رہتے ہونگے۔۔۔
لکھاری ڈان نیوز ٹی وی کے ایگزیکیٹو پروڈیوسر اور پروگرم اینکر ہیں