'پاکستانیوں کی اکثریت طالبان مخالف، انتہاء پسندی سے خوفزدہ'
واشنگٹن: ایک امریکی تھینک ٹینک کے نئے سروے کے مطابق پاکستان میں 66 فیصد عوام مذہبی شدت پسندی کو ملک کے لیے سنگین خطرہ سمجھتے ہیں۔
واشنگٹن میں پیو ریسرچ سینٹر کے اس سروے سے ظاہر ہوتا ہے کہ جنوبی ایشیا، مشرق وسطیٰ اور افریقہ میں تشدد، خود کش حملوں اور خانہ جنگی کے خدشات نے مسلمان اکثریتی ملکوں میں مذہبی شدت پسندی کے حوالے سے تشویش میں اضافہ کیا ہے۔
رواں سال موسم بہار میں منعقد ہونے والے اس سروے کے نتائج بتاتے ہیں کہ پاکستان میں اب بھی 24 فیصد لوگ ایسے ہیں جو شدت پسندی کو سنگین خطرہ نہیں سمجھتے، لیکن جب طالبان کی بات آتی ہے تو ان 24 فیصد کی اکثریت خود کو طالبان سے دور رکھنا چاہتی ہے۔
پاکستان میں تقریباً 60 فیصد آبادی طالبان کو ناپسند کرتے ہیں۔صرف 8 فیصد جواب دہندہ کے خیالات اس شدت پسند تنظیم کے حق میں نظر آئے۔
طالبان کی پرتشدد فطرت کو دیکھتے ہوئے ایک تہائی پاکستانیوں نے اپنی رائے ظاہر کرنے میں ہچکچاہٹ دکھائی۔
حالیہ سالوں میں طالبان کے خیالات میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئی، جبکہ ان کی مخصوص شاخوں مثلاً تحریک طالبان پاکستان اور افغان طالبان کے حوالے سے بھی لوگو ں میں منفی رائے پائی جاتی ہے۔
سروے کے مطابق پاکستان میں دونوں گروپ بالترتیب 56 اور 47 فیصد ناپسندیدہ سمجھے جاتے ہیں۔
۔—. فوٹو بشکریہ پیو ریسرچ سینٹر |
دوسری جانب، مشرق وسطی میں شدت پسندی کے حوالے سے تشویش بڑھتی جارہی ہے اور پچھلے سال کے مقابلے میں لبنان، تنزانیہ، مصر، اردن اور ترکی کے لوگوں میں زیادہ تشویش پائی جاتی ہے۔
حزب اللہ، جس کا صدر دفتر لبنا ن میں ہے، کو سروے میں شامل ہر ملک میں ناپسندیدگی کے طور پر دیکھا گیا۔
پاکستان میں 8 فیصد لوگ اس گروپ کو پسند، 12 فیصد ناپسند کرتے ہیں، جبکہ 81 فیصد کی اس حوالے سے کوئی رائے نہیں۔
مجموعی طور پر سروے میں شامل اکثریت کے فلسطینی تنظیم حماس کے بارے میں خیالات کچھ اچھے نہیں۔
پاکستان میں حماس کے لیے پسندیدگی 8 فیصد، مخالفت 12 فیصد ہے جبکہ 79 فیصد کی کوئی رائے نہیں۔
لبنا ن میں 88 فیصد سنی اور 69 فیصد لبنانی عیسائی حزب اللہ کو ناپسند کرتے ہیں۔ تاہم، 86 فیصد لبنانی شیعہ اس تنظیم کے لیے مثبت خیالات رکھتے ہیں۔
سروے کے مطابق، زیادہ تر لوگ مشہور جنگجو تنظیموں مثلاً القاعدہ کو منفی نظر سے دیکھتے ہیں۔
نائیجریا میں مسلمان اور عیسائی جواب دہندہ افراد کی اکثریت بوکو حرام کی مخالف نظر آئی۔
بوکو حرام نے حال ہی میں نائیجریا کے شمالی علاقے سے سینکڑوں لڑکیوں کو اغواء کر لیا تھا۔
۔—. فوٹو بشکریہ پیو ریسرچ سینٹر |
زیادہ تر جن ملکوں میں سروے کیا گیا، وہاں کچھ مسلمان یہ کہتے پائے گئے کہ اسلام کو دشمنوں سے محفوظ رکھنے کے لیے کبھی کبھار خود کش حملو ں میں شہری اہداف کونشانہ بنانا درست ہے۔
گزشتہ ایک دہائی میں کئی ملکوں میں اس حربے کی حمایت میں کمی آئی لیکن اب بھی کچھ ملکوں کی نمایاں اقلیت خود کش بمباری کو جائز قرار دیتی ہے۔
سروے کے دوران جب پوچھا گیا کہ کیا اسلام کو دشمنوں سے بچانے کے لیے شہری اہداف پر خود کش حملوں کی گنجائش ہے تو پاکستان میں 83 فیصد لوگوں نے 'نہیں' میں جواب دیا۔ چار فیصد کا ماننا تھا کہ 'کبھی کبھار' دو فیصد کے مطابق 'کبھی کبھی'، ایک فیصد کا جواب تھا 'اکثر' جبکہ 11 فیصد نے کوئی رائے ظاہر نہیں کی۔
مشرق وسطیٰ کے حوالے سے دیکھا جائے تو فلسطینی علاقوں میں سب سے زیادہ خود کش حملوں کی حمایت دیکھنے کو ملی، جہاں 46 فیصد نے اسے اسلام کے دفاع میں کبھی کبھی جائز قرار دیا۔
۔—. فوٹو بشکریہ پیو ریسرچ سینٹر |
لبنان میں 29 فیصد مسلمان شہریوں کونشانہ بنانے کو جائز سمجھتے ہیں۔مصر (24 فیصد)، ترکی (18فیصد)، اسرائیل (16 فیصد) اور اردن (15 فیصد) مسلمان کبھی کبھار خود کش حملوں کو درست سمجھتے ہیں۔
بنگلہ دیش کے تقریباً آدھے جواب دہندگان (47 فیصد) خود کش حملوں کو جائز سمجھتے ہیں۔
تبصرے (1) بند ہیں