قومی اسمبلی میں نئے مالی سال کا بجٹ پیش
اسلام آباد: وفاقی وزیرِ خزنہ اسحاق ڈار نے بدھ بارہ جون کو وفاقی بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کردیا۔
مالی سال 2013-14 کے بجٹ کا حجم 3.478 ٹریلین یا 3478 ارب روپے رکھا گیا ہے۔
وفاقی وزیرِ خزانہ کے مطابق حکومت بجٹ کا ایک بڑا حصہ ترقیاتی اخراجات پر خرچ کیا جارہا ہے اور اس بجٹ میں ترقیاتی منصوبوں کیلئے 225 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔
ڈار نے آبی وسائل کی اہمیت پر زور دیتےہوئے کہا کہ مالی سال کے دوران 59 ارب روپے نئے ڈیموں کی تعمیر کیلئے مختص کئے گئے ہیں، اس بجٹ کا ایک اہم مقصد توانائی سیکٹر کے نقصانات کا ازالہ تھا جس کے تحت سبسڈیز کو کم کیا جائے گا اور بجلی کے نرخوں میں بتدریج اضافہ کیا جائے گا۔
وزیرِ خزانہ کے مطابق معیشت کو دوبارہ اپنی پٹڑی پر لانے کیلئے حکومت نے سادگی مہم شروع کی ہے جس کے تحت چالیس ارب روپے تک کی بچت ہوسکے گی۔
' وزیرِ اعظم کے صوابدیدی فنڈ اورسیکیورٹی اداروں کے سوا تمام حکومتی محکموں کے خفیہ فنڈ کو منجمند کرکے ختم کردیا گیا ہے۔
ڈار نے اعلان کیا کہ تھری جی ٹیلیکوم لائیسنس کو نیلام کیا جائے گا اور تین برس میں غیرملکی زرِ مبادلہ کے ذخائر کو بیس ارب ڈالر تک لایا جائے گا۔
منظور شدہ بجٹ کے تحت وفاقی کابینہ نے پنشن میں 10 اضافے کی منظوری دے دی جبکہ ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ نہیں کیا گیا۔ ریٹائرڈ ملازمین کی پینشن میں دس فیصد اضافے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
وفاقی بجٹ کا حجم 34 کھرب 78 ارب روپے رکھا گیا ہے جبکہ آئندہ مالی سال کا بجٹ خسارہ 1 ہزار 651 ارب روپے ہوگا، بجٹ خسارہ شرح نمو کے 6.3 فیصد ہوگا جبکہ صوبوں کو وفاقی قابل تقسیم محاصل سے 1502 ارب روپے دے گا۔
جنرل سیلز ٹیکس 16سے بڑھا کر 17 فیصد کرنے کی تجویز دی ہے، نئے بجٹ کے لیے پنشن میں 10 فیصد اضافے کی منظوری دے دی گئی ہے جبکہ ملازمین کی تنخواہوں میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا۔
اس طرح پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی) دستاویز کے مطابق آئندہ مالی سال کے دوران وفاقی ترقیاتی پروگرام کیلیے 540 ارب روپے جبکہ توانائی کے لیے 225 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
ریلوے کے ترقیاتی منصوبوں کے لیے 31 ارب روپے جبکہ کراچی میں ایک ہزار میگاواٹ کے نیوکلئیر پاور پلانٹ کیلئے دس ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
پی ایس ڈی پی دستاویز کے مطابق چشمہ نیوکلئیر پاور پلانٹ 3،4 کے لیے 42 ارب روپے اور ہائر ایجوکیشن کمیشن کے لیے 17 ارب، 80 کروڑ روپے مختص کیے گئے۔
پی ایس ڈی پی دستاویز کے مطابق تعلیم و تربیت کے ترقیاتی منصوبوں کیلئے 3ارب،30 کروڑ روپے جبکہ ارکان پارلیمنٹ کی ترقیاتی اسکیموں کیلئے پانچ ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
ٹیکسیشن
ڈار نے کہا کہ پاکستان میں ٹیکس ٹو جی ڈی پی شرح نوے کی دہائی میں نواز حکومت میں 13.8 فیصد تھی اور اب یہ شرح 8.9 پر ہے۔ اور یہ شرح دوبارہ 15 فیصد پر لائی جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ ٹیکس کا دائرہ کار وسیع کیا جائے گا۔
' ایک مؤثر ٹیکس سسٹم کے ذریعے ٹیکسوں کے براہِ راست حصول پر توجہ رکھی جائے گی۔ بد قسمتی سے اس سے قبل بالراست ٹیکس حاصل کئے گئے تھے،'
ڈار نے کہا کہ جنرل سیلز ٹیکس کو سولہ سے سترہ فیصد تک لایا جائے گا۔
وزیرِ خزانہ نے کہا کہ غیرملکی فلموں اور ڈراموں پر ایک نیا ود ہولڈنگ ٹیکس لاگو کیا جا رہا ہے
توانائی
وفاقی وزیرِ خزانہ نے کہا کہ اگرچہ تعلیم کا شعبہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد صوبوں کو منتقل کردیا گیا ہے لیکن وفاق اعلیٰ تعلیم کیلئے ستاون ارب روپے کی رقم مختص کی جارہی ہے، اس کے علاوہ تعلیم اور صحت کے شعبوں میں صوبوں کو ہر ممکن مدد دی جائے گی۔
وفاقی وزیرِ خزانہ نے کہا کہ بجلی کی لوڈشیڈنگ کے اثرات سے وفاقی حکومت بخوبی آگاہ ہے۔ اس لیے وفاقی بجٹ میں توانائی کے بحران سے نمٹنے کیلئے 225 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ اس میں بجلی کی پیداواری صلاحیت بہتر بنانے کیلئے مختلف بڑے اور چھوٹے منصوبے شامل ہوں گے۔
چشمہ نیوکلیئر پاور پراجیکٹ ٹو اور تھری کیلئے 42 ارب روپے، نیلم جہلم ہائیڈرو پراجیکٹ کیلئے 25 ارب روپے، دیامیر بھاشا ڈیم کیلئے 24 ارب روپے اور تربیلا ڈیم توسیعی منصوبے کیلئے تیرہ ارب اسی کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔ بجٹ میں کچی کینال کیلئے پانچ ارب تئیس کروڑ روپے، رینی کینال کیلئے تین ارب روپے، داوڑ ڈیم کیلئے ڈھائی ارب روپے، گومل زام ڈیم کیلئے دو ارب روپے اور کرم تنگی ڈیم کیلئے تین ارب روپے رکھے گئے ہیں۔
خیبر پختونخواہ میں بیس چھوٹے ڈیموں کیلئے ساٹھ کروڑ روپے، گھبیر ڈیم کیلئے ایک ارب پندرہ کروڑ اور داسو ڈیم کیلئے پونے دو ارب روپے رکھے گئے ہیں۔
ملک میں توانائی کے بحران کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وزیرِ اعظم جلد ہی توانائی کانفرنس بلائیں گے اور انرجی پالیسی کا اعلان کیا جائے گا، انہوں نے کہا کہ توانائی کے شعبوں میں سرمایہ کاری پر 225 ارب روپے خرچ کئے جائیں گے۔ بجٹ میں انرجی سیونگ بلبوں اور آلات پر ٹیکس کی چھوٹ رکھی گئی ہے۔
ریلوے اور موٹر وے
وفاقی وزیر خزانہ بجٹ تقریر کرتے ہوئے کہا کہ موٹروے کا جال پایہ تکیمل تک پہنچے گا جس لوگوں کے لیے آمدورفت کے نئے ذرائع میسر آئیں گے اور اس سلسلے میں وزیر اعظم نے چین سے بات چیت کی ہے جو شاہراہ ریشم کا جدید عکس ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ ہم متعدد قومی شاہراہوں اور دیگر منصوبوں پر بھی کام کریں گے اور اس سلسلے میں 63ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ کراچی سے حیدرآباد تک ایم نائن موٹر وے تعمیر کئے جائیں گے۔
اس موقع پر انہوں نے محکمہ ریلوے میں بھی نئے پیمانے پر جدید تبدیلیاں لانے کا بھی اعلان کیا۔ ڈار نے کہا کہ ریلوے ایسا ادارہ ہے کہ جو دنیا بھر میں ملکوں کو انتہائی منادفع فراہم کرتا ہے لیکن ہمارے ہاں ناقص منصوبہ بندی کے باعث ریلوے کا ادارہ تباہ ہوگیا جس کےپاس اس وقت تنخواہوں اور پنشن کی ادائیگی کے لیے بھی پیسے نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ ریلوے کا مسئلہ وسائل کا غلط استعمال ہے اور وسائل کو صحیح طریقے سے استعمال میں لانے سے اس محکمے کو نئے سرے سے ترقی کی راہ پر گامزن کیا جا سکتا ہے اور حکومت اسے ایک کارپوریشن میں تبدیل کرے گی جسے آزاد اور خود مختار بورڈ ڈائریکٹرز چلائیں گے۔ ریلوے کا بجٹ جو پہلے بیس ارب روپے تھا اب تیس ارب روپے کردیا گیا ہے۔
وفاقی وزیرِ خزانہ نے کہا کہ انسانی ترقی پر اخراجات کو سرمایہ کاری سمجھنا چاہیے، تعلیم صحت اور بہبود آبادی صوبوں کو منتقل ہو چکے ہیں لیکن ابھی بھی ہہت سے کام حکومت کے ذمے ہیں۔
21 ارب صحت کے منصوبوں کے لیے رکھے گئے ہے، فیملی پلاننگ، زچہ اور بچہ دیگر منصوبہ بندی شامل ہے۔ اس سلسلے میں وفاقی حکومت بھرپور مدد فراہم کرے گی۔
گوادر اور اکنامک زون
ڈار نے کہا کہ جی ڈی پی کی سات فیصد گروتھ حاصل کرنا مشکل ہے۔ انہوں نے نئے انڈسٹریل زون کی تعمیر، خصوصی اکنامک زونز اور گوادر معاشی زونز کا بطورِ خاص ذکر کیا۔
انہوں نے کہا کہ گوادر کے ذریعے ملک میں ایسا نظام چاہتے ہیں کہ چین سے پورے ایشیا تک فعال ہو اور اس پر کام کیا جائے گا۔
ہاؤسنگ سکیم
اسحاق ڈار نے کہا کہ ملک میں ہاؤسنگ اور رہائشی سکیموں کا بحران ہے ۔ انہوں نے کہا کہ سرکاری زمینوں پر تین مرلے ہاؤسنگ سکیموں کا آغاز کیا جائے گا اور ایک ہزار کالونیاں تعمیر کی جائیں گی۔ ہر کالونی میں 500 گھر تعمیر ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ آشیانہ ہاؤسنگ سکیموں کی طرح منصوبے وضع کئے جائیں گے۔
انکم سپورٹ پروگرام کا ماہانہ ہزار روپے سے بڑھا کر 1200 روپے کیا جارہا ہے اور اس کا حجم چالیس ارب سے بڑھا کر اب پچھتر ارب روپے کردیا گیا ہے۔
شادی بیاہ، غیرملکی فلموں اور ڈراموں پر ٹیکس
شادی بیاہ اور دیگر تقریبات، ہوٹل کلب، شادی ہال،ریسٹورنٹ پر ودہولڈنگ ٹیکس نافذ ہوگا۔ بنک سے 25ہزاراور اس سے زائد رقم پر ٹیکس اعشاریہ 2فیصد سے بڑھا کر اعشاریہ 3فیصد کی جارہی ہے۔عمارتی بلڈرز اور ڈویلپرز، تعمیر شدہ رقبہ پر 50روپے فی مربع فٹ اور ڈویلپڈ رقبے پر 100روپے فی مربع فٹ ٹیکس نافذ ہوگا۔
غیر ملکی فلموں اورڈراموں پر ودہولڈنگ ٹیکس لگانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ایک غیر ملکی فلم پر 10 لاکھ روپے ٹیکس نافذ جائے گا، غیر ملکی ایک قسط والے ڈرامے پر ایک لاکھ روپے ٹیکس فی قسط لاگو ہوگا۔
تبصرے (2) بند ہیں