• KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:54am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:20am Sunrise 6:47am
  • KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:54am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:20am Sunrise 6:47am

کراچی: نجی گارڈز کی تعداد پولیس اہلکاروں سے زیادہ

شائع May 28, 2014
۔ —. فائل فوٹو رائٹرز
۔ —. فائل فوٹو رائٹرز

کراچی: پچھلے پانچ سالوں سے شہری پولیس کی آپریشنل قوت ستائیس ہزار اہلکاروں کی تعداد پر جا کر ٹھہری ہوئی ہے۔ جبکہ دوسری جانب شہر بھر میں نجی سیکیورٹی گارڈوں کی تعداد پچپن ہزار تک جاپہنچی ہے، جس سے سیکیورٹی کے خطرات بڑھتے جارہے ہیں۔

یہ صورتحال ملک کے صنعتی دارالحکومت میں نجی سیکیورٹی انڈسٹری کے لیے گویا ایک رحمت ثابت ہوئی ہے، جہاں ایک پولیس اہلکار اوسطاً ایک ہزار پانچ سو چوبیس افراد کی زندگیوں، جائیداد اور جائز مفادات کی حفاظت پر مامور ہے۔

پولیس کی جانب سے جاری کیے گئے اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ کراچی میں پولیس کی خدمات انجام دینے والے چھبیس ہزار آٹھ سو سینتالیس اہلکار موجود ہیں، جبکہ آل پاکستان سیکیورٹی ایجنسیز ایسوسی ایشن (اے پی ایس اے اے) کی جانب سے مرتب کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق 125 سے زیادہ کمپنیاں پچپن ہزار نجی سیکیورٹی گارڈ کی خدمات انفرادی طور پر اور اداروں کی سطح پر فراہم کرتی ہیں۔

آل پاکستان سیکیورٹی ایجنسیز ایسوسی ایشن کے چیئرمین نثار سرور نے کہا کہ ’’کراچی میں کام کرنے والی ہماری کمپنیوں کے ساتھ لگ بھگ پچپن ہزار نجی سیکیورٹی گارڈز رجسٹرڈ ہیں۔‘‘

انہوں نے کہا کہ ساؤتھ زون جو سندھ بلوچستان ریجن پر مشتمل ہے، کراچی کے ساتھ جو اس کا مرکز ہے، ہمارے 143 رجسٹرڈ اراکین ہیں، اور قریب قریب تمام ہی کا مرکز کراچی میں ہے اور یہیں سب اپنا کام کررہے ہیں۔

جیسا کہ سیکیورٹی گارڈز کی طلب میں رفتہ رفتہ اضافہ ہوا ہے، اس رجحان کی وجہ سے پچھلے چند سالوں کے دوران سیکورٹی گارڈوں کی تعداد بھی یقیناً بڑھ گئی ہے۔

ایک طرف تو نجی سیکیورٹی گارڈ کے رجحان سے نجی کمپنیوں کے لیے کہیں زیادہ کاروباری مواقع پیدا ہوئے ہیں، لیکن دوسری جانب اس سے بندرگاہ کے حامل اس شہر کی کمزور سیکیورٹی کی صورتحال کی عکاسی بھی ہوتی ہے۔جہاں پولیس اہلکاروں کا اوسط فی شہری اس خطے میں سب سے کم ہے، حالانکہ یہ شہر نصف سے زیادہ حصہ قومی آمدنی میں ڈالتا ہے۔

کراچی پولیس کی جانب سے کی گئی ایک حالیہ اسٹڈی جسے میڈیا کے سامنے پیش کیا گیا، یہ نشاندہی کرتی ہے کہ قانون نافذ کرنے والوں کی دستیاب قوت چھبیس ہزار آٹھ سو سینتالیس ، ضرورت سے انتہائی کم ہے۔ اس سلسلے میں اس متحرک شہر کے دوکروڑ بیس لاکھ افراد کے لیے ایک پالیسی وضع کرنے کی ضرورت ہے۔

پولیس اسٹڈی میں بیان کیا گیا ہے کہ چھبیس ہزار آٹھ سو پولیس اہلکاروں میں سے آٹھ ہزار پانچ سو اہم شخصیات اور حساس تنصیبات کو تحفظ دینے کے سیکیورٹی مقاصد کے لیے تعینات کیے گئے ہیں، اور تین ہزار ایک سو دو اہلکار تفتیش کے کاموں پر مامور ہیں۔

صرف چودہ ہزار چار سو تینتیس پولیس اہلکار امن و امان کو برقرار رکھنے اور کراچی کے دو کروڑ بیس لاکھ شہریوں کی زندگیوں اور جائیدادوں کو تحفظ دینے کے لیے ذمہ دار ہیں۔ یہ چودہ ہزار چار سو تینتیس اہلکاربارہ گھنٹوں کی دو دو شفٹوں میں کام کرتے ہیں، اس سے واضح ہوتا ہے کہ اوسطاً ایک پولیس اہلکار ایک ہزار پانچ سو چوبیس افراد کے تحفظ کے لیے تعینات کیا جاتا ہے۔

پولیس رولز چیپٹر دو کے مطابق پولیس کی واچ اینڈ وارڈ کی کل قوت ساڑھے چارسو افراد کے لیے ایک کانسٹبل کے تناسب سے کم نہیں ہونی چاہیٔے۔

پولیس کے ایک سینئر اہلکار کا خیال ہے کہ کراچی میں پولیس فورس کی خطرناک حد تک کم تعداد نے ناصرف محکمے کی مجموعی کارکردگی کو متاثر کیا ہے، نئی بھرتیوں کا سست عمل بھی پولیس کی ذمہ داریوں کی بہتر ادائیگی میں ایک رکاوٹ بنتا رہا ہے۔

ایک اور سینئر اہلکار کا کہنا تھا کہ پورے شہر میں مشکل سے ایک پولیس اسٹیشن ایسا ہو جو منظور شدہ قوت کے ساتھ کام کررہا ہو۔

انہوں نے بتایا کہ پولیس کی دستیاب قوت میں سے آٹھ ہزار پولیس اہلکار اہم شخصیات، جن میں سیاستدان، اراکین پارلیمنٹ، اعلٰی حکام، کاروباری شخصیات، سماجی اور مذہبی شخصیات شامل ہیں کی سیکیورٹی کی ذمہ داری ادا کررہے ہیں۔

دنیا کے بعض بڑے شہر جہاں حالاتِ زندگی اور جرائم کا رجحان کراچی سے ملتا جلتا ہے، پولیس کے وسائل کے لحاظ سے کراچی سے آگے ہیں۔ مثلاً لندن میں ایک پولیس اہلکار ایک سو باون افراد کی خدمت کا ذمہ دار ہے، نئی دہلی میں ایک پولیس اہلکار دو سو اکیانوے شہریوں کی حفاظت کرتا ہے اور نیویارک میں ایک پولیس اہلکار دو سو سینتیس افراد کی خدمت کرتا ہے۔ یہاں تک کہ لاہور میں بھی ایک پولیس اہلکار تین سو سینتیس افراد کے لیے وقف ہے۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024