پاکستان کرکٹ کا پوسٹ مارٹم

شائع April 4, 2014

وہی ہوا جس کا خدشہ تھا، ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں اب تک کی بدترین کارکردگی کے بعد پاکستانی ٹیم کا سفر اختتام پذیر ہوا، پھر تنقید در تنقید کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا جس کے بعد کپتان محمد حفیظ نے عہدہ چھوڑنے میں ہی عافیت جانی۔

کپتان نے کہہ تو دیا کہ ان پر کسی نے دباؤ نہیں ڈالا اور یہ فیصلہ ان کا اپنا ہے جو انہوں نے پاکستان کرکٹ کی بہتری کے لیے کیا، لیکن اگر کوئی دباؤ نہیں تو پھر اتنا غصہ کیوں کہ ٹیسٹ اور ایک روزہ کرکٹ کی نائب کپتانی بھی چھوڑ دی۔

ویسے تو گزشتہ ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں بھی ہم اتفاقیہ طور پر سیمی فائنل میں پہنچے تھے لیکن اس ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں ٹیم سلیکشن سے میدان میں اترنے تک یہ ٹیم مکمل طور پر شکست خوردہ دکھائی دی اور ایسی ٹیمیں کوئی ٹورنامنٹ نہیں جیتا کرتیں بلکہ ان کا حشر وہی ہوتا جو اس بار ہماری ٹیم کا ہوا۔

ورلڈ کلاس باؤلنگ اٹیک؟

یہ بات درست کے ٹیم میں کچھ کھلاڑیوں حفیظ کی منشا پر شامل کیا گیا لیکن کیا اس ناکامی کے ذمے دار صرف حفیظ ہی تھے؟۔

معین خان کو تو ویسے ہی صرف دو ایونٹس کے لیے ذمے داری سونپی گئی اور چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ نجم سیٹھی کا یہ بیان کہ 'معین کو صرف کو ٹورنامنٹ کے لیے تعینات کرنے کا فیصلہ درست تھا' اس بات کی واضح دلیل ہے کہ بورڈ مستقبل میں ان سے مزید کوئی خدمات حاصل کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا جبکہ ظہیر عباس اور شعیب محمد تو کسی گنتی میں ہی نہیں ہیں۔

لیکن اب سوال یہ ہے کہ گزشتہ کچھ عرصے سے باؤلنگ اٹیک اس 'عظیم' پرفارمنس کے ذمے دار باؤلنگ کوچ محمد اکرم پر اتنی نظر کرم کیوں کی جا رہی ہے جن کی کوچنگ میں دنیا کا بہترین باؤلنگ اٹیک پچھلے تقریباً ایک سال سے بے دانت کا شیر دکھائی دیا۔

صرف گزشتہ ایونٹس کا ہی جائزہ لیا جائے تو گزشتہ سال کے آغاز سے اب تک یہ ٹیم اکثر مواقعوں پر حریف کو روکنے میں ناکام دکھائی دی اور ٹیمیں رنز کی برسات کرتی رہیں، حتیٰ کہ بنگلہ دیش جیسی ٹیم نے ایشیا کپ میں 326 رنز جڑ دیے اور پھر 'ورلڈ کلاس باؤلنگ اٹیک فائنل میں 260 رنز کے قدرے بہتر مجموعے کا دفاع بھی نہ کرسکا۔

ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں بھی صورتحال کچھ زیادہ مختلف نہ تھی خصوصاً ویسٹ انڈیز کے خلاف آخری پانچ اوورز میں ہونے والی پٹائی کے بعد تمام ہی کرکٹ حلقوں میں یہ سوال کوند رہا ہے کہ کیا واقعی یہ ورلڈ کلاس باؤلنگ اٹیک ہے اور باؤلنگ کوچ کا ٹیم میں کیا کردار ہے۔

یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اسی دوران پاکستان کے دو اہم باؤلرز محمد عرفان اور عمر گل انجریز کا شکار ہوئے اور عرفان کو مسلسل کھلانے کے باعث وہ بالآخر دو اہم ٹورنامنٹ میں پاکستانی کو دستیاب نہ ہو سکے۔ اس تمام صورتحال میں باؤلنگ کوچ کے کردار اور انہیں تاحال عہدے سے نہ ہٹائے جانے پر سوالیہ نشان برقرار ہے۔

اگلا قائد کون؟

اس تمام تر صورتحال میں ایک بار پھر قومی ٹیم کے اگلے کپتان کے حوالے سے قیاس آرائیاں شروع ہو چکی ہیں جہاں ممکنہ طور پر شاہد آفریدی کو ٹیم کی باگ ڈور سونپی جا سکتی ہیں جسے یقیناً پاکستانی شائقین کافی سراہیں گے لیکن اگر طویل مدتی پش منظر میں دیکھا جائے تو یہ ایک اور تباہ کن فیصلہ ہو گا جس کے مستقبل میں بھیانک نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔

اس سلسلے میں ہمیں دنیا کی دیگر ٹیموں سے سبق لینے کی ضرورت ہے جنہوں نے مستقبل کو مدنظر رکھتے ہوئے نوجوان کھلاڑیوں کو اس طرز کی کرکٹ میں قیادت کی ذمے داریاں سونپیں جس کی سب سے بڑی مثال ہندوستانی کپتان مہندرا سنگھ دھونی ہیں جو اس وقت بلاشبہ دنیا کے سب سے بہترین کپتان ہیں۔

پی سی بی کو بھی اسی حکمت عملی کو بنیاد بناتے ہوئے احمد شہزاد، جنید خان یا کسی دوسرے نوجوان کھلاڑی کو کپتان بنا کر دیگر طرز کی کرکٹ کے لیے تیار کیا جائے۔

کامران اکمل اور شعیب ملک اور کتنی باریاں لیں گے؟

حکمت عملی و کارکردگی سے عاری اور بلند وبانگ دعوؤں سے لبریز اس ٹیم پر کامران اکمل اور شعیب ملک پورے ٹورنامنٹ میں بوجھ بنے رہے لیکن ان کی جگہ نوجوانوں کو کھلانے کا 'رسک' نہ لیا گیا، وہ کیوں اس کا جواب شاید ٹیم مینجمنٹ ہی بہتر دے سکے۔

کامران اکمل کو اس بنیاد پر ٹیم میں شامل کیا گیا کہ وہ جارحانہ انداز میں بلے بازی کرتے ہیں، اول تو ان سے بیٹنگ ہوئی نہیں اور جتنی ہوئی اس میں بھی کامران سے زیادہ حریف ٹیم کی جارحیت نظر آئی۔

رہی بات شعیب ملک کی تو شاید وہ خود بھی نہیں جانتے کہ انہیں ٹیم میں کس بنیاد پر شامل کیا گیا اور وہ کون سا تجربہ تھا جو ایونٹ میں وہ ٹیم کے لیے استعمال کرنے والے تھے۔

تو آخر کس بنیاد پر یا کس کی پرچی پر ان دونوں کو ٹیم میں جگہ دی گئی اور پھر ٹیم میں شرجیل خان اور جنید خان جیسے نوجوان کے ہوتے ہوئے انہیں کھلانا کس حد تک درست تھا؟۔

حفیظ تو مستعفی ہو گئے لیکن آخر نام نہاد سینئر کو ٹیم میں جگہ دینے کے لیے آخر کب باصلاحیت نوجوانوں کی بلی چڑھائی جاتی رہے؟، کیا اب بھی ہم سبق سیکھیں گے یا پھر کچھ دنوں بعد دوبارہ تجربہ کار کا لیبل لگا کر کچھ کھلاڑیوں کو ٹیم میں شمولیت کا حقدار سمجھا جاتا رہے۔

اگر ایسا ہی رہا تو شاید کرکٹ ٹیم تو رہے لیکن پھر وہ وقت دور نہیں جب کرکٹ دیکھنے والا کوئی نہ بچے گا۔

سیٹھی صاحب کچھ تو کیجیے

نجم سیٹھی کی کرکٹ بورڈ میں تقرری سے سب کو امید تھی کہ ایک تجربی کار صحافی اور سجھدار انسان کے ہاتھ میں کرکٹ کی باگ ڈور آنے کے سبب اب پاکستان کرکٹ میں کچھ بہتری دکھائی دے گی لیکن افسوس کہ ایسا اب تک نہ ہو سکا۔

گو کہ انہیں بہت زیادہ وقت نہیں ملا لیکن آخر کرکٹ میں اس قدر اکھاڑ پچھاڑ کے بعد ان کی تعیناتی سے ٹیم کو کیا فائدہ پہنچا اور ہم نے اس سب کے لیے کیا کچھ گنوایا۔

چیئرمین پی سی بی نے کہا تو ہے کہ آئندہ چار ماہ میں اچھے فیصلے کیے جائیں گے اور ساتھ ساتھ پاکستانی لیگ کے انعقاد کا بھی عندیہ دیا لیکن یہ بات بھی سچ ہے کہ ماضی میں بھی تمام چیئرمین کچھ ایسی ہی باتیں کرتے رہے ہیں اور صورتحال جوں کی توں ہے۔ ایسے میں مثبت تبدیلیاں سیٹھی حاصب کے لیے بہت بڑا چیلنج ہوگا۔

اب آئندہ ورلڈ کپ میں اب ایک سال سے بھی کم وقت رہ گیا ہے اور پاکستان کی اگلی سیریز میں کم و بیش چار سے پانچ ماہ کا وقت ہے، ایسے میں بورڈ خصوصاً سیٹھی صاحب کو چاہیے کہ وہ ٹیم کی بہتری کے لیے سنجیدہ اقدامات کریں خصوصاً کوچ کی تعیناتی میں نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا میں ہونے والے ورلڈ کو مدنظر رکھا جائے تاکہ گرین شرٹس مزید رسوائیوں سے بچ سکیں۔

تبصرے (1) بند ہیں

ISRAR MUHAMMAD Apr 04, 2014 10:48pm
یہ‏ ‏بات‏ 100‏فیصد‏ ‏سے‏ ‏زیادہ‏ ‏درست‏ ‏ھے‏ ‏کہ‏ ‏ملک‏ ‏کے‏ ‏دوسرے‏ ‏شعبوں‏ ‏کی‏ ‏طرح‏ ‏کھیل‏ ‏میں‏ ‏سیاست‏ ‏ھوتی‏ ‏ھے‏ ‏اور‏ ‏ھماری‏ ‏سیاست‏ ‏قومیت‏ ‏لسانی‏ ‏اور‏ ‏بدعنوانی‏ ‏اور‏ ‏اقربا‏ ‏پروری‏ ‏سے‏ ‏بھری‏ ‏ھے‏ ‏اس‏ ‏طرح‏ ‏کھیل‏ ‏بھی‏ ‏اسی‏ ‏برائیوں‏ ‏کا‏ ‏شکار‏ ‏ہوچکا‏ ‏ھے‏ ‏ سب‏ ‏سے‏ ‏پہلے‏ ‏چیرمین‏ ‏صاحب‏ ‏کا‏ ‏تقرر‏ ‏‏ ‏سیاسی‏ ‏ھے‏ ‏اس‏ ‏کے‏ ‏بورڈ‏ ‏کے‏ ‏دوسرے‏ ‏عہدے‏ ‏دار‏ ‏ اب‏ ‏جو‏ ‏ھونا‏ ‏تھا‏ ‏وہ‏ ‏ہوگیا‏ ‏ھے‏ ‏اب‏ ‏ھم‏ ‏کو‏ ‏اگے‏ ‏کی‏ ‏طرف‏ ‏دیکھنا‏ ‏ھوگا‏ ‏کہ‏ ‏بہتر‏ ‏تبدیلی‏ ‏کس‏ ‏طرح‏ ‏ھوگی‏ ‏یا‏ ‏ہوسکتی‏ ‏ھے‏ ‏ ھم‏ ‏محمد‏خفيظ‏ ‏کی‏ ‏اس‏ ‏بات‏ ‏کی‏ ‏قدر‏ ‏کرتے‏ ‏ھیں‏ ‏کہ‏ ‏انہوں‏ ‏شکست‏ ‏کی‏ ‏زمہ‏ ‏داری‏ ‏قبول‏ ‏کی‏ ‏اور‏ ‏ایک‏ ‏اچھی‏ ‏روایت‏ ‏قائم‏ ‏کی‏ ‏

کارٹون

کارٹون : 27 دسمبر 2025
کارٹون : 25 دسمبر 2025