غداری کیس میں پرویز مشرف پر فردِ جرم عائد
اسلام آباد: اسلام آباد کی خصوصی عدالت میں جاری سنگین غداری کے مقدمے کی آج ہونے والی سماعت میں سابق فوجی حکمران پرویز مشرف پر فردِ جرم عائد کردی گئی ہے۔
سماعت کے دوران جسٹس طاہرہ صفدر نے پانچ الزامات پر مشتمل فردِ جرم پڑھ کر سنائی تاہم ملزم نے صحتِ جرم سے انکار کیا اور خود پر عائد الزامات مسترد کر دیے۔
اس کے بعدعدالت نے کیس کی سماعت کو دو بجے تک ملتوی کردیا۔
وقفے کے بعد سماعت کے دوران خصوصی عدالت نے مشرف کے بیرون ملک جانے کی درخواست مسترد کردی تاہم ان کو حاضری سے استثنیٰ دے دیا گیا۔
مشرف نے والدہ کی عیادت کے لیے بیرون ملک جانے کی درخواست کی تھی۔
سابق صدر کے وکیل فروغ نسیم نے عدالت موقف اختیار کیا تھا کہ بیرون ملک سفر بنیادی حق ہے اور کوئی بھی عدالت اس حق کا نفاذ کرسکتی ہے۔
عدالت کے فیصلے کے مطابق ملزم کو ضرورت پڑنے پر طلب کیا جاسکتا ہے۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ مشرف کا نام ای سی ایل میں عدالت نے نہیں ڈالا اور حکومت ہی معاملے پر نظرثانی کرسکتی ہے۔
عدالت نے وضاحت کی ہے کہ عدالت نے مشرف کا نام ای سی ایل سے نکالنے پر پابندی نہیں لگائی۔
بعدازاں کیس کی سماعت 15 اپریل تک کے لیے ملتوی کردی گئی۔
اس سے قبل کیس کی سماعت میں عدالت نے قرار دیا کہ مشرف نے تین نومبر سن 2007ء کے اقدامات میں آئین کے آرٹیکل چھ کے خلاف ورزی کی۔
فردِ جرم میں سابق صدر پر 60 سے زائد ججوں کو نظر بند کرکے غیر قانونی اقدام کیا۔
چارٹ شیٹ پر سابق صدر نے دسخط کیے جس میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ انہوں نے تین نومبر کو اپنے بنائے ہوئے پی سی او کے تحت ججوں کو حلف اٹھانے پر مجبور کیا۔
عدالت نے کیس کی سماعت آج دوپہر دو بجے تک ملتوی کردی جب اس مقدمے کا فیصلہ سنایا جائے گا۔
سماعت میں مشرف کے وکیل بیرسٹر فروغ نسیم نے عدالت سے درخواست کی کہ ان کے مؤکل کو ان کی بیمار والدہ سے ملنے کے لیے متحدہ عرب امارات جانے کی اجازت دی جائے۔،
اس سے قبل مشرف مقدمے کی سماعت میں اپنے اپرا عائد الزامات کا سامنا کرنے کے لیے عدالت میں پیش ہوئے تھے۔
غداری کیس کی سماعت خصوصی عدالت کے جج جسٹس فیصل عرب کی سربراہی میں تین رکنی بینچ کرہا ہے، جبکہ بیرسٹر فروغ نسیم کو مشرف کے لے وکیل مقرر کیا گیا۔
سماعت جب شروع ہوئی تو سابق صدر کے وکیل احمد رضا قصوری کو کمرےِ عدالت میں داخل ہونے سے روک دیا گیا۔
یہ عدالت اسلام آباد کے ریڈ زون میں واقع نیشنل لائبریری میں قائم کی گئی تھی جس کے اطراف سیکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کیے گئے ہیں اور ہسپتال سے عدالت تک تقریباً دو ہزار پولیس اہلکار تعینات کیے گئے ہیں۔
گزشتہ سماعت میں عدالت نے مشرف کے ناقبلِ ضمانت وارنٹ جاری کرنے کے اپنی فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے انہیں آج 31 مارچ کو ہر صورت عدالت کے سامنے حاضر ہونے کا حکم دیا تھا تاکہ ان پر فردِ جرم عائد کی جاسکے۔
سابق فوجی صدر آج صبح سخت حفاظتی سیکیورٹی میں عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔
اس سے پہلے وہ گزشتہ مہینے 18 فروری کو ہونے والے سماعت میں پیش ہوئے تھے۔
واضح رہے کہ یہ دوسرے مرتبہ ہے جب سابق صدر عدالت میں پیش ہوئے ہیں۔
پیر کی صبح پرویز مشرف کا قافلے جب عدالت کے لیے روانہ ہوا تو ان سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے، جبکہ اس کے لیے ایک نیا روٹ استعمال کیا گیا۔
اس قبل گزشتہ رات سابق صدر کی طبیعت اچانک خراب ہونے کے بعد یہ خیال کیا جا رہا تھا کہ وہ آج کی سماعت میں پیش نہیں ہوسکیں گے۔
پرویز مشرف کے خلاف آئین کے آرٹیکل چھ کے تحت مقدمہ چلانے والی خصوصی عدالت نے پہلے ہی سابق صدر کے ناقبلِ ضمانت وارنٹ جاری کرتے ہوئے انہیں آج کی سماعت میں ہر صورت پیش ہونے کا حکم دے رکھا ہے، جہاں ان پر فردِ جرم عائد کی جائے گی۔
ذرائع کا کہنا کہ طبیعت کی خرابی کے باعث مشرف کے آج پیر کے روز ہونے والی سماعت میں حاضری کے امکانات کم ہیں، کیونکہ ڈاکٹرز انہیں عدالتی کارروائی میں پیشی کی اجازت نہیں دیں گے۔
ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ سماعت میں ان کے وکیل عدالت سے درخواست کریں گےکہ ان انسانی ہمددی کے طور پر ان کے مؤکل کو متحدہ عرب امارات جانے کی اجازت دی جائے جہاں پر ان کی والدہ ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔
سابق صدر کے بہت ہی قریبی ذرائع کے مطابق مشرف کی 95 سالہ والدہ کو طبیعت خراب ہونے پر گزشتہ روز دبئی کے شہر شارجہ کے ڈبلو ڈبلو ویلسن ہسپتال منتقل کردیا گیا جس کے بعد اتوار کی شام روالپنڈی کے آرمڈ فورسز انسٹیٹوٹ آف کارڈیالوجی میں زیر علاج سابق صدر کی طبیعت اچانک خراب ہوگئی اور انہیں ہستپال کے آئی سی یو وارڈ میں منتقل کردیا گیا۔
واضح رہے کہ سابق فوجی کو اس ہسپتال میں رواں سال دو جنوری کو اس وقت داخل کیا گیا تھا جب اپنے فارم ہاؤس سے عدالت جاتے ہوئے انہیں دل میں تکلیف محسوس ہوئی تھی۔
ابتدائی علاج کے دوران پہلے بھی انہیں آئی سی وارڈ میں رکھا گیا، تاہم بعد میں ان کو ہسپتال کے ایک دوسرے کمرے میں منتقل کردیا گیا تھا۔
ڈان نیوز نے ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ ہیجانی کیفیت کے باعث سابق صدر کا بلڈ پریشربڑھ گیا تھا ان کی اچانک طبیعت بگڑنے پرانھیں انتہائی نگہداشت کے شعبے میں منتقل کر دیا گیا جہاں ڈاکٹرز کی ٹیم انکا میڈیکل چیک اپ کررہے ہیں۔
ذرائع نے بتایا کہ طبعیت میں بہتری پرہی وہ خصوصی عدالت میں پیش ہوں گے۔
دوسری جانب سابق صدر کے کچھ وکلاء نے آج کی سماعت سے ممکنہ بائیکاٹ کا بھی اشارہ دیا ہے۔
ان کے مطابق سماعت میں تین رکنی خصوصی عدالت کے سربراہ جسٹس فیصل عرب پیش نہیں ہوں گے، کیونکہ گزشتہ سماعت میں انہیں نے اشارہ دیا تھا کہ وہ اس کیس کو نہیں سننے گے۔
یاد رہے کہ جمعہ کے روز ہونے والی سماعت کے دوران سندھ ہائی کورٹ کے جج اور خصوصی عدالت کے سربراہ جسٹس فیصل عرب نے سماعت سے انکار کرتے ہوئے بینچ سے الگ ہونے کا اشارہ دیا تھا۔
تاہم بعد میں ان خبروں کی تردید کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ جسٹس فیصل ابھی بھی اس بینچ کا حصہ ہیں اور انہیں نے مشرف کی پیشی اور ناقابلِ ضمانت وارنٹ جاری کرنے کے فیصلہ کو برقرار رکھا ہے۔
پرویز مشرف کے ایک وکیل رانا اعجاز احمد کا کہنا ہے کہ عدالت ان کے مؤکل کے مقدمے کی سماعت کرنے کی گریز کررہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ مشرف کا دفاع کرنے والے وکیل نے عدالت سے اپنی تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اس کی اسرِ نو تشکیل کی درخواست کی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ' ہم عدالت سے یہ بھی درخواست کریں گے کہ ان کے مؤکل کو ان کی بیمار والدہ سے ملنے کی اجازت دی جائے اور اگر عدالت نے ان کی درخواست کو مستر کیا تو وہ کیس کی کارروائی سے بائیکاٹ کریں گے۔ ' رانا اعجاز احمد کا کہنا تھا کہ جب سے سابق صدر کو ہسپتال میں منتقل کیا گیا اس وقت سے ان کی والدہ کی طبیعت خراب رہنے لگی ہے اور امکان ہے کہ وہ آج کی سماعت میں پیش نہ ہوں۔
واضح رہے کہ مشرف کا ای سی ایل میں شامل ہے جس کی وجہ سے وہ ملک سے باہر نہیں جاسکتے۔
ذرائع یہ بھی بتاتے ہیں کہ سابق صدر کا ای سی ایل سے نام خارج کرنے کے لیے کوششیں کی گئی ہیں، کیونکہ وہ اپنی بیمار والدہ سے ملنے متحدہ عرب امارات جانے کے خواہاں ہیں جس کا اشارہ ان کی قانونی ٹیم بھی دے چکے ہے۔
سیکیورٹی انتظامات
پیر کے روز ہونے والی سماعت کے لیے سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے ہیں |
سابق فوجی حکمران کی عدالت میں ممکنہ پیشی اور ان کے خلاف غداری کیس کی سماعت کے موقع پر ایک مرتبہ پھر آج سیکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کیے گئے ہیں۔
ڈان نیوز ٹی وی کے مطابق پرویز مشرف کے قافلے کے لیے ایک نئے روٹ کا انتخاب کیا گیا ہے۔
اس موقع پر آرمڈ فورسز انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی سے خصوصی عدالت تک کے راستے میں پولیس کی بھاری نفری کو تعینات کیا جائے گا۔ ان سیکیورٹی انتظامات کو گزشتہ رات ہی حتمی شکل دے دی گئی تھی۔
ذرائع کے مطابق آج صبح پرویزمشرف کی سیکیورٹی پر دو ہزار سے زائد اہلکار تعینات ہوں گے جس میں اسلام آباد پولیس کمانڈوز، رینجرز اور اسپیشل برانچ کے اہلکار شامل ہوں گے۔
جنرل مشرف پر غداری کیس میں فرد جرم کے لیے پیر کو جاری وارنٹ کے بعد اب یہ اے ایف آئی سی کے ڈاکٹروں پر منحصر ہے کہ وہ انہیں سماعت کے لیئے ہسپتال سے جانے کی اجازت دیتے ہی یا نہیں۔
عدالت نے 14 مارچ کو جنرل پرویز مشرف کا وارنٹ جاری کیا تھا اور اسلام آباد پولیس سے اس پر عمل کرنے کا حکم دیا تھا۔
وارنٹ میں کہا گیا تھا کہ جنرل مشرف کو گرفتار کرکے 31 مارچ کو عدالت میں ہر صورت پیش کیا جائے۔
بعض افسران کا یقین ہے کہ اگر اے ایف آئی سی کے ڈاکٹرز سابق مشرف کو عدالت جانے کے لیئے سفر کی اجازت نہیں دیتے تو پولیس انہیں گرفتار کر سکتی ہے یا انہیں ہسپتال میں مزید احکامات تک حراست میں رکھ سکتی ہے۔
پولیس افسران کے مطابق اس مقصد کے لیئے تشکیل دی گئی ٹیم پیر کی صبح راجہ بازار پولیس اسٹیشن راولپنڈی کے ایس ایچ کے ہمراہ وارنٹ کے ساتھ ہسپتال جائیں گے۔
افسران نے مزید کہا کہ اگر ڈاکٹر پولیس کو مشرف کو عدالت لے جانے سے انکار کرتے ہیں تو انہیں جنرل پرویز مشرف کی صحت کی حالت سے متعلق سرٹفیکٹ جاری کرنا ہوگا کہ وہ سفر کے قابل نہیں۔
غداری کیس میں سابق فوجی حکمران کو تین نومبر 2007ء میں ملک میں ایمرجنسی نافذ کر نے پر آئین سے سنگین غداری جیسے الزامات کا سامنا ہے جس کے گزشتہ سال نومبر میں وفاقی حکومت نے تین رکنی خصوصی عدالت کو تشکیل دیا تھا۔
تبصرے (8) بند ہیں