ڈیڑھ ارب ڈالرز کی امداد پر سینیٹ میں تحریک التواء
اسلام آباد: کل بروز جمعہ سینیٹ میں حزبِ اختلاف کی جانب سے ایک تحریک التواء پیش کی گئی، جس میں کہا گیا تھا کہ شام کے حوالے سے اپنی خارجہ پالیسی میں تبدیلی کی قیمت پر حکومت نے ایک مسلم ملک سے ڈیڑھ ارب ڈالرز وصول کیے ہیں، تاکہ امریکی ڈالر کے مقابلے میں روپے کو مستحکم کیا جائے۔
پیپلزپارٹی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر جنہوں نے یہ تحریک التواء جمع کرائی تھی، کا کہنا تھا کہ وہ ایوانِ بالا کے آئندہ اجلاس میں اس معاملے کو بحث کے لیے پیش کرنا چاہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’’یہ دعویٰ کہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں اضافے کے نتیجے میں واجب الادا قرضے کی مالیت 800 ارب ڈالرز سے نیچے آئی ہے، ہم اس کا خیرمقدم کرتے ہیں، لیکن ہمیں یہ یقین دلانے کی ضرورت ہے کہ ہماری خارجہ پالیسی کے اہم حصوں پر سودے بازی نہیں کی گئی ہے۔‘‘
وزیرخزانہ نے بدھ کے روز کہا تھا کہ ایک مسلم ملک نے پاکستان ڈویلپمنٹ فنڈ کے تحت ڈیڑھ ارب ڈالرز دیے ہیں، لیکن انہوں نے اس ملک کی نشاندہی نہیں کی تھی۔
سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ ’’یہ رازداری بہت سے سوالات کھڑے کررہی ہے۔ ہمیں یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ یہ فنڈ کب اور کس مقصد کے لیے قائم کیا گیا اور کچھ ہی عرصے پہلے فرینڈز آف ڈیموکریٹک پاکستان کے نام سے قائم کیے گئے فنڈ کا کیا ہوا۔‘‘
انہوں نے کہا کہ ’’اس کے علاوہ ہمیں یہ بھی جاننے کی ضرورت ہے کہ کیا یہ عطیہ ہے، امداد ہے یا پھر قرضہ ہے، اور اس کے لیے شرائط و ضوابط کیا ہیں، اس لیے کہ اس قدر خطیر رقم کسی بدلے کے بغیر نہیں دی جاتی ہے۔ ملکوں کے درمیان تعلقات کے دوران وہ اپنے قومی مفادات کو پیش نظر رکھتے ہیں، اور یہ کچھ لو اور دو کی بنیاد پر ہوتے ہیں۔ ان معاملات کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔‘‘
فرحت اللہ بابر نے کہا کہ شام کے حالات کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ وہ مشرقِ وسطیٰ کا افغانستان بن سکتا ہے، اور انہوں نے خبردار کیا کہ افغانستان کے تباہ کن تجربے کو نظرانداز کرتے ہوئے شام کی پالیسی میں تبدیلی کے ذریعے ہمیں کوئی مصیبت نہیں مول لینی چاہیٔے۔
’’یہ بہت بڑی غلطی ہوگی کہ مشرقِ وسطی کی علاقائی طاقت کی سیاست کے جال میں ہم خود جا گریں گے۔‘‘
پیپلزپارٹی کے رہنما نے کہا کہ خطرے کی گھنٹی اس وقت ہی بجنا شروع ہوگئی تھی، جب پچھلے مہینے ایسی اطلاعات ملی تھیں کہ ایک مسلم ملک شامی باغیوں کو اینٹی ایئرکرافٹ اور اینٹی ٹینک راکٹ کی فراہمی کے لیے پاکستان سے مذاکرات کررہا تھا۔
مشرق وسطیٰ کے ایک معزز مہمان کے دورے کے بعد جاری ہونے والے مشترکہ بیان پر شکوک کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس بیان میں شام میں ایک عبوری گورننگ باڈی کے قیام کا مطالبہ کیا گیا تھا، جو مکمل انتظامی اختیارات کے ساتھ ملکی معاملات کو چلائے۔
انہوں نے کہا کہ جنیوا ون کے اعلامیے میں تشدد اور انسانی حقوق کی پامالی کے خاتمے اور شامی عوام کی امنگوں کے مطابق شام میں ایک سیاسی قیادت کے ساتھ سیاسی منتقلی کے آغازکا مطالبہ کیا گیا تھا۔
سینیٹ میں پیش کی گئی تحریک التواء میں کہا گیا ہے کہ جنیوا اعلامیہ میں ’’سیاسی عمل کے ذریعے ایک سیاسی منتقلی‘‘ کے مطالبے اور وزیراعظم کے مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز کے مشترکہ بیان ’’مکمل اختیارات کے ساتھ عبوری گورننگ باڈی کے قیام‘‘ کے مطالبے میں گہرا فرق موجود ہے۔ یہ مستقبل کے لیے کوئی اچھا شگون نہیں ہے۔