جبری طور پر لاپتہ ایک اور فرد کا سراغ مل گیا
اسلام آباد: ایک سال سے زیادہ عرصے کی اذیت اور اپنے شوہر کی تلاش کے سلسلے میں ذہنی کرب سے گزرنے کے بعد عابدہ ملک کو یہ جان کر بے حد خوشی ہوئی کہ ان کے شوہر کے بارے میں پتہ لگالیا گیا ہے۔
جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین ججز پر مشتمل ایک بینچ کے سامنے ایڈیشنل اٹارنی جنرل شاہ خاور نے ایک دستاویز میں موجود یہ خوشخبری پڑھ کر سنائی۔
وزارت دفاع کے لیگل ڈائریکٹر کی جانب سے تحریری کی گئی یہ دستاویز، جسے شاہ خاور نے پڑھ کر سنایا، میں کہا گیا ہے کہ ’’تاصیف علی جنہیں پانچ مارچ 2014ء کو گرفتار کیا گیا تھا، اس کے بعد انہیں ریگولیشن2011ء کے ایکشن کے تحت لکی مروت کے حراستی مرکز میں قید کردیا گیا تھا۔‘‘
اس سے پہلے تاصیف علی عرف دانش کی حراست کے بارے میں کسی بھی انٹیلی جنس ایجنسی کی جانب سے تسلیم نہیں کیا جارہا تھا۔
اگرچہ لاپتہ تاصیف علی کے بارے میں جان کر اطمینا ہوگیا تھا، لیکن عدالت نے کہا کہ یہ معاملہ فوری طور پر اپنے انجام کو پہنچنے والا نہیں ہے، اور متعلقہ حکام کو حکم دیا کہ وہ تاصیف علی کے ساتھ ان کی اہلیہ اور ان کے سسر کی ملاقات کا ایک ہفتے کے اندر انتظام کریں۔
اس کیس کی سماعت بیس مارچ تک ملتوی کردی گئی۔
عابدہ ملک کے وکیل ریٹائرڈ کرنل انعام الرحمان نے ڈان کو بتایا کہ ’’چونکہ ان کے ٹھکانے کے بارے میں معلوم ہوگیا ہے، چنانچہ اب ہم ان کے کیس کی متعلقہ عدالت میں ان کے کیس کی پیروی کریں گے۔‘‘
انہوں نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کشمیر سے تعلق رکھنے والے فرد کو کس طرح راولپنڈی سے گرفتار کرکے انہیں لکی مروت کے حراستی مرکز میں لے جایا جاسکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس کیس سے یہ بھی طے ہوگیا کہ تفتیش کا کام پولیس کا بنیادی فرض ہے، جسے کسی بھی حاضر سروس فوجی آفیسر قطع نظر اپنے عہدے یا حیثیت کے پولیس سے چھین نہیں سکتا۔
چھبیس فروری کو ہونے والی اس کیس کی پچھلی سماعت کے دوران عدالت نے وزارتِ دفاع کی ایک درخواست کو رد کردیا تھا، جس میں گزارش کی گئی تھی کہ تاصیف علی کی جبری گمشدگی میں مبینہ طور پر ملؤث ملٹری انٹیلی جنس کے میجر محمد علی احسن پر پاکستان آرمی ایکٹ (پی اے اے) 1952ء کے تحت مقدمہ چلانے کی اجازت دی جائے۔
عدالت نے پنجاب پولیس سے کہا تھا کہ وہ ملزم (میجر احسن) پر اپنی تحقیقات جاری رکھے۔
حزب المجاہدین کے ایک سرگرم کارکن تاصیف علی 23 نومبر 2012ء سے لاپتہ تھےاور انہیں مبینہ طور پر میجر محمد علی احسن نے اُٹھالیا تھا۔ میجر احسن اس وقت کیپٹن تھے اور منگلا کنٹونمنٹ ایم آئی-918 پر تعینات تھے۔
یہ معاملہ صادق آباد پولیس اسٹیشن میں پانچ دسمبر 2012ء کو درج کیا گیا تھا، اور بعد میں اس کی سماعت لاہور ہائی کورٹ میں 19 مارچ 2013ء کو ہوئی تھی۔ تاہم یہ مقدمہ خارج کردیا گیا تھا۔
اپنی شکایت میں عابدہ ملک نے اپنے شوہر کے ساتھ ایک فون کرنے والے کے درمیان مبینہ طور پر سخت الفاظ کے استعمال کیے جانے کا حوالہ دیا تھا، فون کے کرنے کے بارے میں ان کا خیال تھا کہ وہ میجر احسن تھے، یہ بات چیت 22 نومبر 2012ء کو تقریباً سہہ پہر چار بجے ہوئی تھی۔
اس کے اگلے دن ان کے شوہر جمعہ کی نماز ادا کرنے گئے اور پھر کبھی واپس نہیں آئے۔