’پاکستانی حکومت اور فوج طالبان کو خطرہ سمجھتی ہے‘
واشنگٹن: پاکستانی حکومت اور فوج دونوں ہی طالبان کے وجود کو اپنی ریاست کے لیے ایک خطرہ سمجھتے ہیں اور ان کے ساتھ نمٹنے کے لیے پُرعزم ہیں۔ یہ بات افغانستان میں امریکی اور بین الاقوامی افواج کے کمانڈر نے بدھ کے روز امریکی کانگریس کے سامنے بیان کی۔
جنرل جوزف ڈنفورڈ نے امریکی سینیٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی کو یہ بھی بتایا کہ وزیراعظم نواز شریف طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنا چاہتے ہیں، لیکن یہ بات واضح نہیں ہے کہ ٹی ٹی پی کے ساتھ ایک تعمیری معاہدے کی شرائط کیا ہوں گی۔
افغانستان کی موجودہ صورتحال پر ایک سماعت کے دوران جنرل ڈنفورڈ نے کہا کہ امریکی فوج کابل کے ساتھ دوطرفہ سیکیورٹی معاہدے کا اگست تک انتظار کرسکتی ہے، اس کے بعد اگر ایک معاہدے پر دستخط نہیں ہوئے تو وہ اس ملک سے اپنے انخلاء کی تیاری شروع کردے گی۔
سماعت کے دوران ڈیموکریٹک سینیٹر جینے شاہین نے جنرل سے وضاحت کےلیے سوال کیا کہ پاکستان کی صورتحال کس طرح افغانستان کی صورتحال کو متاثر کرسکتی ہے۔
جنرل ڈنفورڈ نے کہا کہ ’’پاکستان کے تعاون اور پاکستان اور افغانستان کے درمیان مؤثر تعلقات کے بغیر اس خطے میں کامیابی کا تصور کرنا مشکل امر ہے۔
’’مجھے یقین ہے کہ پاکستان بھی اس بات کا ادارک ہے کہ انتہاپسندی خود اس کی سلامتی کے لیے خطرہ ہے، اوراس نے یہ تسلیم کرلیا ہے کہ ایک مستحکم، محفوظ اور متحد افغانستان دوسروں سے کہیں زیادہ خود اس کے حق میں بہتر ہے ۔ ‘‘
امریکی جنرل نے حوالہ دیا کہ اگست کے بعد سے پاکستانی اور افغان حکمرانوں نے چار مرتبہ ملاقات کی تھی، جس سے اشارہ ملتا ہے کہ وزیراعظم نواز شریف ہمسایہ ملک کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کے ایک نئے عزمِ مصمم کے ساتھ آئے تھے۔
انہوں نے کہا کہ اس تعاون میں دو حصوں پر توجہ مرکوز ہے، ایک تو انتہا پسندی کی مشترکہ تعریف اور دوسرے اس سے نمٹنے کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون، جسے وسیع تر سرحدی انتظامی فریم ورک کے ساتھ آگے بڑھایا جائے، جو دونوں ملکوں کے درمیان سیاسی، اقتصادی اور سیکیورٹی کے مسائل کا حل پیش کرے۔
’’ہمارا کردار افغانستان اور پاکستان کے درمیان ایک تعمیری فوجی تعلقات کو ترقی دینا ہے۔‘‘
جنرل ڈنفورڈ نے کہا کہ انہوں نے حال ہی میں پاکستان کے نئے آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے ملاقات کی تھی، جنہوں نے پاکستانی فوج اور افغان سیکیورٹی فورسز کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے اپنے بھرپور عزم کا اظہار اشارہ دیا تھا، جیسا کہ ان کے افغان ہم منصب کا عزم تھا، اور ہم اگلے کئی مہینوں کے دوران اس کے لیے کافی وقت خرچ کریں گے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ چند ایسی چیزو ں میں سے یہ ایک ہے، جن پر امریکا افغانستان اور پاکستان کے دوطرفہ تعمیری تعلقات کے لیے اس سال کے آخر تک عمل کرنا چاہتا ہے۔
سینیٹر شاہین نے ان سے سوال کیا ’’پاکستان کے حصے میں موجود طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کی کوششوں کے بارے میں کیا آپ کچھ بتاسکتے ہیں؟‘‘
جنرل ڈنفورڈ نے کہا ’’سینیٹر، ہم اس کو انتہائی محتاط ہوکر دیکھے رہے ہیں۔ ایمانداری کی بات یہ ہے کہ ہمیں حقیقی معنوں میں اس بات چیت کی حیثیت کا کوئی اندازہ نہیں ہے۔ جبکہ ہم حالیہ دنوں میں ٹی ٹی پی کی جانب سے جاری تشد کو بھی دیکھ رہے ہیں۔‘‘
’’اس کے علاوہ ہم نے ٹی ٹی پی کے خلاف خصوصاً شمالی وزیرستان کے علاقے میں محدود فوجی آپریشن بھی دیکھا ہے۔ لیکن ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ وزیراعظم نواز شریف اور پاکستان کی قیادت اس مسئلے کا پُرامن حل حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔‘‘
جنرل ڈنفورڈ نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان دونوں ہی کو طویل المدتی معاملات کو دیکھنے کی ضرورت ہے، لیکن آج یہ مجھ پر واضح نہیں ہے کہ ٹی ٹی پی اور حکومتِ پاکستان کے درمیان امن مذاکرات کے لیے مقررہ شرائط کیا ہوں گی۔ لیکن یہ واضح ہے کہ وہ اس کو انجام تک پہنچانے کے لیے کام کررہے ہیں۔
یہ پہلا موقع ہے کہ ایک سینئر امریکی اہلکار نے ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات پر تبصرہ کیا ہے۔