ٹی ٹی پی کمیٹی کی طالبان قیادت سے ملاقات نہیں ہوسکی
اسلام آباد: تحریکِ طالبان پاکستان کی مذاکراتی کمیٹی نے ابھی تک اس بات کا فیصلہ نہیں کیا ہے کہ وہ کب تک ٹی ٹی پی قیادت سے ملاقات کرکے انہیں ان تحفظات سے آگاہ کریں گے، جن کا اظہار وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے چھ مارچ کو ہونے والی ملاقات میں کیا گیا تھا۔
نہ ہی حکومت نے ابھی تک طالبان سے براہِ راست مذاکرات کے لیے نئی بااختیار کمیٹی تشیکل دی ہے۔
طالبان کی جانب سے نامزد کردہ مذاکراتی کمیٹی کے رکن پروفیسر ابراہیم نے ڈان کو بتایا کہ "ہم آئندہ چند روز میں طالبان کی قیادت سے ملاقات کے حوالے سے فیصلہ کریں گے۔"
خیال رہے کہ رواں مہینے چھ مارچ ٹی ٹی پی کے مذاکرات کاروں نے وزیراعظم نواز شریف سے ملاقات میں انہیں اس بات کی یقین دہانی کروائی تھی کہ وہ آئندہ دو روز میں ٹی ٹی پی کی قیادت سے ملاقات کرکے ٹی ٹی پی کے جہادی گروپس کی جانب سے حالیہ حملوں پر حکومتی تشویش سے آگاہ کریں گے۔
طالبان کمیٹی نے اس بات پر بھی اتفاق کیا تھا کہ حکومتی کمیٹی کا ایک رکن طالبان مذاکرات کاروں کے ساتھ ہوگا۔
کچھ ایسی بھی رپورٹس ملی ہیں کہ ٹی ٹی پی کمیٹی ملاقات کے لیے طالبان کی کال اور آئندہ کے لائحہ عمل سے پہلے حکومت کی نئی کمیٹی کی تشکیل کی منتظر ہے۔
واضح رہے کہ حکومت نے مذاکرات کے لیے رابطے کو برقرار رکھنے کے لیے اپنی کمیٹی کو عملی طور پر تحلیل کرتے ہوئے اس کی کارکردگی کو محدود کردیا تھا۔ دوسری جانب طالبان نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ اپنی موجودہ کمیٹی کے ذریعے ہی نئی حکومتی کمیٹی کے ساتھ مذاکرات کریں گے۔
پروفیسر ابراہیم کا کہنا تھا کہ "میرا خیال ہے کہ طالبان حکومت کی نئی کمیٹی کی تشکیل کا انتظار کررہے ہیں اور اس کے بعد ہی وہ آگے کے لائحہ عمل کا انتظار کررہے ہیں۔"
کچھ غیر مصدقہ اطلاعات میں حکومتی کمیٹی کے رکن رستم شاہ مہمند کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ وہ طالبان رہنماؤں سے ملاقات کے سلسلے میں قبائلی علاقوں میں گئے ہیں۔
لیکن جب ڈان نے رستم شاہ مہمند سے رابطہ قائم کیا تو ان کا کہنا تھا کہ "ان کے پاس ٹی ٹی پی مذاکرات کاروں کے حوالے سے کوئی باضابطہ معلومات نہیں ہیں۔"
حکومتی کمیٹی کے ایک اور رکن کا کہنا تھا کہ طالبان نے حکومت کے ساتھ غیر مشروط مذاکرات کرنے پر اتفاق کرتے ہوئے لچک کا مظاہر کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس سے قبل طالبان نے تین اہم مطالبے کیے تھے جن میں غیر جنگجو قیدیوں کی رہائی، 65 طالبان کی آزادی اور محسود قبائل کے کچھ علاقوں کو ایک امن زون قرار دیا جائے، تب ہی مذاکرات کا انعقاد ہوسکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے طالبان مذاکرات کاروں سے کہا ہے کہ وہ حکومت کی نئی کمیٹی کے ساتھ براہ راست مذاکرات کے دوران ان مطالبات کو سامنے رکھے اور وہ اس سے اتفاق کرتے ہیں۔