طالبان کی افغان صدارتی انتخابات کو نشانہ بنانے کی دھمکی
کابل: طالبان نے افغانستان کے صدارتی انتخابات کو نشانہ بنانے کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے اپنے جنگجوؤں پر زور دیا ہے کہ وہ پانچ اپریل کو حامد کرزئی کے پیشرو کے انتخاب سے قبل پولنگ اسٹاف، ووٹرز اور سیکورٹی فورسز کو نشانہ بنائیں۔
سابقہ افغان الیکشن پرتشدد واقعات سے بری طرح متاثر ہوئے تھے جہاں شدت پسندوں نے 2009 میں ہونے والے امریکی حمایت یافتہ انتخابات کی بھرپور مخالفت کی تھی اور صرف انتخابات کے دن 31 شہری اور 26 فوجی اور پولیس اہلکار ہلاک ہوئے تھے۔
ایک اور خونی انتخابات عالمی امدادی اداروں کے دعوے کو بری طرح متاثر کریں جہاں ان کا کہنا ہے کہ 2001 کے بعد افغانستان میں بڑے پیمانے پر فوجی اور شہری مداخلت سے ایک فلاحی ریاست کے قیام کی راہ ہموار ہوئی ہے۔
نیٹو افواج کا 13 سال تک جاری رہنے والی جنگ کے بعد رواں سال ملک سے انخلا شیڈول ہے۔
طالبان کی جانب سے پیر کو ای میل کیے گئے ایک بیان میں کہا گیا کہ ہم نے اپنے تمام مجاہدین کو ان شرمناک انتخابات کو بری طرح متاثر کرنے کے لیے بھرپور طاقت کے استعمال کا حکم دیا ہے۔
'یہ تمام افغانیوں کی مذہبی ذمے داری ہے کہ وہ حملہ آوروں کی جانب سے الیکشن کی آڑ میں بنائے گئے اس منصوبے کو ناکام بنائیں'۔
افغانستان کی تعمیرات اور فوجی آپریشن کے لیے اربوں ڈالر خرچ کیے جا چکے ہیں لیکن کمزور حکقومتی ڈھانچے کے باعث ملک غربت اور شدت پسندی کا شکار ہے اور اس کی معیشت کا تمام تر دارومدار امدادی رقم پر ہے۔
نئے افغان صدر کو اس نئے دور میں کئی امتحانوں کا سامنا ہو گا جہاں افغان فوج اور پولیس کو طالبان سے لڑائی میں نیٹو افواج کی مدد اور عالمی امداد میسر نہ ہو گی۔
طالبان نے بیان میں مزید کہا کہ ہم ایک بار پھر اپنے ملک کے لوگوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ الیکشن دفاتر، ووٹنگ بوتھ، ریلیوں اور جلوس سے دور رہیں اور اپنی زندگی کو خطرے میں نہ ڈالیں۔
'اگر پھر بھی کسی نے الیکشن میں حصہ لینے کی کوشش کی تو وہ مستقبل میں اپنی جان ضائع ہونے کا خود ذمے دار ہو گا'۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ اصل انتخابات سی آئی اے اور پنٹاگان کے دفاتر میں ہوں اور ان کے پسندیدہ امیدوار پہلے ہی جیت چکے ہیں۔
افغان حکومت نے فوری طور پر طالبان کی دھمکیوں پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا لیکن حکام کا کہنا ہے کہ تمام پولنگ سینٹر مکمل طور پر محفوظ اور پرامن انتخابات کے لیے سیکورٹی فورسز بالکل تیار ہیں۔