• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm

حکومت کا طالبان کے ساتھ مذاکرات بحال کرنے کا فیصلہ

شائع March 4, 2014 اپ ڈیٹ March 5, 2014
وزیر اعظم نواز شریف نے حکومتی کمیٹی کے ساتھ ملاقات میں کہا کہ پائیدار اور مستقل امن حکومت کی اولین ترجیح ہے
وزیر اعظم نواز شریف نے حکومتی کمیٹی کے ساتھ ملاقات میں کہا کہ پائیدار اور مستقل امن حکومت کی اولین ترجیح ہے

اسلام آباد: وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے گزشتہ روز یہ واضح کیا کہ پائیدار اور مستقل امن حکومت کی اولین ترجیح ہے جس کے لیے تمام تر کوششیں جاری رہیں گی۔

انہوں نے مذاکراتی کمیٹی کو ہدایت دیں کہ امن مذاکرات کے عمل کو آگے کی جانب بڑھایا جائے۔

وزیراعظم نواز شریف نے ان خیالات کا اظہار طالبان سے مذاکرات کرنے کے لیے قائم حکومتی کمیٹی کے اراکین سے بات کرتے ہوئے کیا۔ یہ اجلاس گزشتہ روز وزیراعظم ہاؤس میں ہوا۔

اجلاس کے شرکاء میں وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان اور حکومتی کمیٹی کی جانب سے اس کے کوارڈینٹر اور سینیئر صحافی عرفان صدیقی، مجیر ریٹائرڈ محمد عامر، رستم شاہ مہمند اور رحیم اللہ یوسف زئی شامل تھے۔

اس موقع پر اسلام آباد اور خیبر ایجنسی میں دہشت گردی کے واقعات کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

ڈان نیوز کے مطابق وزیر اعظم ہاوس کی طرف سے جاری اعلا میہ میں کہا گیا ہے کہ وزیر اعظم سے ملاقات سے قبل مذکراتی کمیٹی کا اجلاس ہوا۔جسمیں تحریک طالبان کی طرف سے فائر بندی کے اعلان کے بعد ہونے والی دہشت گردی کے واقعات کا جائزہ لیا گیا۔

بعد ازاں کمیٹی کے ارکان نے وزیر اعظم سے ملاقات کی اور وزیر اعظم کو آئندہ کے لائحہ عمل کے بارے میں تجاویز پیش کیں۔

وزیر اعظم نے اس موقع پر کہا کہ پائیدار اور مستقل امن کا قیام حکومت کی اولین ترجیح ہے جسکی ہر سطح پر کوشش جاری رہیں گی۔

کمیٹی کے کواڈینیٹر عرفان صدیقی نے بتایا کہ امن کی کوشش جاری رکھی جائیں گی اور طالبان کمیٹی سے جلد رابطہ بھی کیا جائے گا۔

ذرائع نے بتایا کہ وزیر اعظم نے کمیٹی کو مشاورت جاری رکھنے کی ہدایت دی تاہم مذکارت کا عمل دوبارہ شروع کرنے کے حوالے سے کوئی ٹھوس بات سامنے نہیں آ سکی۔

خیال رہے کہ یہ اجلاس ایسے وقت ہوا جب ایک روز پہلے ہی اسلام آباد کے سیکٹر ایف ایٹ میں واقع کچہری میں ہوئے بم دھماکوں اور فائرنگ سے ایک سیشن جج سمیت گیارہ افراد ہلاک ہوگئے تھے۔

تحریک طالبان پاکستان نے اس واقعہ سے لاتعلقی کا اظہار کیا تھا، تاہم بعد میں غیر معروف پاکستانی طالبان کے سابقہ گروپ احرار الہند کے ترجمان اسد منظور نے ڈان ڈاٹ کام سے گفتگو کرتے ہوئے حملے کی ذمہ داری قبول کرلی تھی۔

تبصرے (4) بند ہیں

Syed Mar 04, 2014 05:33pm
طالبان سے مذاکرات پرسنی، شیعہ، ملک کے تمام اعتدال پسند عوامی حلقے، پی پی پی کے چئیرمین بلاول بھٹو زرداری سمیت اکثریت کی تمام تر مخالفت کے ساتھ ساتھ مسلم لیگ نواز کی پارلیمانی پارٹی کی اکثریت کی جانب سے بھی مخالفت آن دی ریکارڑ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نواز حکومت اقلیتی رائے کے ساتھ مذاکرات کا ڈرامہ کیوں رچا رہی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
kamran Mar 05, 2014 12:00am
There is no importance majority opinion. "Mian" brothers are only trying to protect Lahore as he is the PM of Lahore only. Rest of the country belongs to taliban's. He doesn't care if nobody wants dialogue with those criminals, he wants it because he has already negotiated Lahore with them.
Wazir Mar 05, 2014 08:19am
Army should ousted the goverment and impose Martial Law. these politicians (criminals) will never do anything. Not to that army is doing anything. this whole mess is because of them (1979).
Syed Mar 05, 2014 08:46am
کالعدم دہشتگرد طالبان کی جانب سے جنگ بندی کا اعلان قومی اتفاق رائے منتشر کرنے کی سازش ہے۔ دہشتگردوں کی طرف سے وقتی جنگ بندی قابلِ قبول نہیں۔ تمام لشکر، سپاہ اور طالبانِ خون کو فوری طور پر اور غیر مشروط ہتھیار ڈالنا پڑے گا۔ پاکستان کی بقاء کیلئے اِن دہشتگردوں کی طرف سے وقتی جنگ بندی مسئلے کا حل نہیں، ریاستی ادارے اپنا آپریشن شروع کریں اور اِن خوارج و تکفیری طالبان کے مزید ٹائم لینے کے دھوکے میں نہ آئیں- یاد رکھیں، پاکستان اور طالبان ایک ساتھ نہیں چل سکتے، لہذا آپریشن شروع کیا جائے اور تمام دہشت گردوں کے مکمل خاتمے یا سرنڈر کرنے تک جاری رکھا جائے۔ طالبان کی سرپرستی اور حمایت کو ریاست کے خلاف ایک سنگین جرم قرار دیا جائے،اور پھر جو بھی لوگ اس جرم کے مرتکب ہوں اُن کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے۔ ملک سے انتہاپسندی، نام نہاد فرقہ واریت اور اور دہشت گردی کے مکمل خاتمے کے لیے سخت ترین سزا کا دیا جانا بھی وقت کی اولیں ضرورت ہے۔

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024