پالیسی اور حقائق
سب سے پہلے اچھی خبر۔ قومی داخلی سلامتی پالیسی پارلیمنٹ کے سامنے پیش کردی گئی اور نظر آتا ہے کہ حکومت نے ایک بنیادی لیکن کلیدی فکر ہضم کر لی ہے: جب داخلی سلامتی کی طرف آئیں تو یہاں فوری طور پر حل موجود نہیں؛ صبر و برداشت اور ہمت درکار ہوگی۔
ساتھ ہی یہ بات بھی خوش آئند ہے کہ حکومت کی تازہ ترین کوشش کے ذریعے جاں کنی کا شکار نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم اتھارٹی (نیکٹا) کو بھی نئی زندگی ملی، اسے رابطہ کار ادارے کا وہ درجہ دے دیا گیا، جس کے واسطے اسے تخلیق کیا گیا تھا۔
کم از کم، سول سیکیورٹی اداروں کی استطاعت پر زور دینا درست ہے لیکن اسلام آباد اور صوبوں کے لیے نئی ریپڈ رسپانس پولیس فورس کاخیال زیادہ بہتر نہیں ہوسکتا۔ موجودہ اداروں کو مضبوط کرنے کے بجائے ایک نئی فورس تشکیل دینے کی طرف سیاستدانوں کا جھکاؤ، پھر وہی وقت کی فتح نظر آتا ہے۔
جیسا کہ آنے والے دنوں میں پالیسی کی دیگر تفصیلات، اور ممکنہ طور پر خفیہ رکھے گئے حصے کی بھی تفصیل افشا ہو کر، سامنے آہی جائیں گی، تب ہی یہ اچھی طرح واضح ہوسکے گا کہ پالیسی کتنی موثر ثابت ہوگی۔
اگرچہ کسی بھی منصوبے کے بارے میں بہتر رائے تب ہی دی جاسکتی ہے جب اُس پر عمل ہو، لیکن اس کو اختیار اور نافذ کرنے پر توجہ مرکوز کیے بغیر، یہی کہنا کافی ہے کہ وہاں طویل المدت کامیابی کے امکانات کم ہی ہیں۔
اور اب ذرا کم اچھی خبر۔ اول، حکومت نے جو نقطہ نظر اختیار کیا وہ محدود ہے اور پالیسی غلط اختتام سے شروع ہوتی ہے۔
داخلی سلامتی پالیسی کسی خلا میں موجود ہوتے ہوئے تشکیل نہیں دی گئی اور خاص طور پر پاکستان کے تناظر میں، یہ مجموعی طور پر قومی سلامتی کی وہ حکمت عملی ہے جو داخلی اور عالمی، دونوں سطح پر صورتِ حال کو دیکھتی ہے اور اس میں فوجی طاقت سے لے کر خارجہ پالیسی تک، تمام پہلوؤں کا احاطہ شامل ہے۔
لہٰذا، قومی داخلی سلامتی پالیسی جب افغانستان، ہندوستان اور کشمیر پر پالیسیوں کی خامیوں کا تذکرہ کرتی ہے تو وہ اس پر زیادہ وقت صرف نہیں کرتی کہ جو نقطے رہ گئے ہیں انہیں باہم جوڑ دے۔
اور شاید سب سے زیادہ محال یہ تصور نظر آتا ہے کہ ماضی پیچھے رہ گیا، آج تمام اداروں کو یہ سمجھنے اور تسلیم کرنے کی ضرورت ہے کہ اُن سے ماضی میں کیاغلطیاں ہوئیں اور یہ عزم کرلیا جائے کہ اب انہیں پھر سے دہرایا نہیں جائے گا۔
اگر اس حقیقت کو قبول کرلیا جاتا ہے تو صرف اسی صورت میں اداروں کے اندر ایک بنیادی تبدیلی رونما ہوگی ورنہ دہائیوں پرانی حقیقت کو صرف سلامتی پالیسی کے الفاظ سے تبدیل نہیں کیا جاسکے گا۔
صرف ان دو مثٓالوں سے اس نقطہ نظر کی مجموعی مشکلات پر غور کیجیے۔ وزیرِ داخلہ نے گذشتہ روز صرف ایک جنگ کا حوالہ دیا جو صرف تیرہ سال پرانی ہے۔ انہوں نے افغانستان کے اندر لڑی جانے والی تازہ ترین جنگ سے بات شروع کی اور پاکستان میں مذہبی عسکریت پسندی کی قدامت سے صرفِ نظر کرگئے۔
اب اگر بذاتِ خود تشخیص ہی غلط ہو تو نسخہ کیا خاک کارگر ہوسکے گا؟ دوم، متعدد گروہوں اور تنظیموں کے درمیان برسوں کی قربت اور اشتراکِ عمل ہے تو کیا اسے منتخب طور پر ختم کیا جاسکتا ہے؟
ہر وہ گروپ جس نے پاکستان پر اپنی جنگ مسلط کی ہوئی ہے، کبھی وہ خود ایک اثاثہ یا اتحادی سمجھے جاتے تھے۔ کیا آج بھی یہاں غیر ریاستی عناصر پر مشتمل اتحادی یا اثاثے موجود ہیں؟
تبصرے (3) بند ہیں