'سیکورٹی پالیسی کا پہلا حصہ سیکرٹ، دوسرا سٹریٹیجک ،تیسرا آپریشنل'
اسلام آباد: وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے قومی داخلی سلامتی پالیسی کے خدوخال سے ایوان کو آگاہ کرتے ہوئے بتایا ہے کہ سیکورٹی پالیسی کے 3 حصے ہونگے پہلا حصہ سیکرٹ، دوسرا سٹرٹیجک اور تیسرا آپریشنل ہے۔
انہوں نے کہا کہ انسداد دہشت گردی کیلئے نیکٹا بنیادی اتھارٹی ہو گی، نیکٹا کے تحت جوائنٹ انٹیلی جنس ڈائریکٹوریٹ قائم کیا جائے گا جس میں ملک کے 26 سول اور فوجی انٹیلی جنس اداروں کے نمائندے ہونگے۔
وفاق اور صوبوں میں ریپڈ ریسپانس فورس تشکیل دی جائے گی جو انٹیلی جنس کی بنیاد پر کارروائی کرے گی، وزارت داخلہ میں نیا سیکورٹی ڈویژن بنایا جائے گا جو وفاق، صوبوں اور انٹیلی جنس اداروں سے کوآرڈینیشن کرے گا۔
وفاقی وزیر داخلہ کے مطابق حکومت نے ماضی کی پالیسی کو تبدیل کرتے ہوئے دہشت گردی کی کسی بھی کارروائی کی صورت میں اس کا جواب دینے کا فیصلہ کیا ہے ، وزیرستان میں اسی پالیسی کے تحت دہشت گردوں کی کمین گاہوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
بدھ کو قومی اسمبلی میں وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے پالیسی بیان دیتے ہوئے کہا کہ ماضی میں چار حکومتوں نے اس معاملے پر توجہ نہیں دی، کسی بھی ملک کو اس صورتحال کا سامنا ہوتاہے تو سب سے پہلے ایک موثر حکمت عملی وضع کی جاتی ہے تاہم 13 سالوں میں ماضی کی چار حکومتوں نے اس پر توجہ نہیں دی، وزیراعظم کی زیر قیادت ہم نے مشکل ترین صورتحال کا سامنا کیا۔
وزیرداخلہ نے کہاکہ ہم نے بین الاقوامی تجربات کو مدنظر رکھ کر چھ ماہ کی محنت سے پالیسی تیار کی ہے۔ امریکہ، برطانیہ اور سری لنکا نے سالوں کا وقت صرف کر کے پالیسیاں بنائیں ہم نے صرف پانچ ماہ میں پالیسی تیار کی، این ڈی یو سمیت کئی اداروں اور افراد سے رائے لی۔
ان کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعتوں میں سے صرف ایم کیو ایم نے رائے دی مگر کسی صوبے یا جماعت سے ہمیں کوئی تجویز نہیں دی گئی،ہم نے مالیاتی مسائل کو مدنظر رکھ کر پالیسی بنائی ہے، یہ کوئی حتمی دستاویز نہیں، ارکان کی موثر تجاویز کو اس میں شامل کیا جائے گا۔
وزیرداخلہ نے کہا کہ ہمیں قومی سلامتی پالیسی کو اپنی غلطیوں اور تجربات سے اس کو مزید مربوط بنانا ہو گا۔
پالیسی کی تفصیلات بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس کے تین حصے ہیں ایک خفیہ حصہ ہے جو انتظامی اختیارات میں آتا ہے، اس کی تشہیر نہیں کی جاتی اس میں خفیہ اداروں کی اطلاعات کو مدنظر رکھ کر فیصلے کئے جاتے ہیں، دوسرا حصہ سٹرٹیجک ہے۔
انہوں نے کہا کہ اسلام آباد کامرہ، مہران بیس اور جی ایچ کیو پر حملے سمیت کئی دہشت گردی کے واقعات رونما ہوئے اس کے باوجود حکومت نے صدق دل اور اخلاص سے مذاکرات کا راستہ اختیار کیا۔
انہوں نے کہا کہ جن گروپوں کے ساتھ بات چیت جاری تھی انہوں نے کبھی پاکستان کیخلاف کوئی کارروائی نہیں کی تاہم بنوں حملہ سے کام خراب ہوا۔
وزیراعظم نے اس کے بعد عسکری قیادت کو بلا کر کہا کہ اب مذاکرات کھلے اور شفاف انداز میں قوم کے سامنے ہونے چاہئیں۔ اس سلسلے میں کمیٹی قائم ہوئی اور 17 دن اس پر کام کیا میرے ساتھ رابطے بھی رہے اور وزیراعظم بذات خود رہنمائی کرتے رہے۔
تاہم ایف سی کے 23 اہلکاروں کی شہادت کے بعد حکومت نے مشاورت سے فیصلہ کیا کہ مذاکرات اور تشدد دونوں ایک ساتھ آگے نہیں بڑھ سکتے۔
چوہدری نثار کے مطابق ہم نے کہا کہ تشدد کی کاررائیاں بند ہونگی تو مذاکرات آگے بڑھیں گے۔ عسکری قیادت نے پارٹی کے اندر، خیبر پختونخوا کے گورنر اور حکومت سمیت کئی جماعتوں کے ساتھ گھنٹوں مشاورت کی گئی۔
ہم نے کمیٹی میں پی ٹی آئی کا ایک نمائندہ رکھا مگرا س کے باوجود یہ کہنا کہ انہیں اعتماد میں نہیں لیا گیا افسوسناک ہے۔
وزیرداخلہ نے کہاکہ ایف سی اہلکاروں کو غیر انسانی طور پر ذبح کیا گیا، کراچی اور پشاور کے واقعات ہوئے حکومت کا فیصلہ تھا کہ معصوم اور بے گناہ لوگوں کا قطعاً نقصان نہیں ہونا چاہئے۔
سیکورٹی اداروں نے خفیہ معلومات کی بناء پر صرف ٹارگیٹڈ کارروائی کی جو حکومتی ویژن کے عین مطابق تھی۔
انہوں نے کہا کہ حکومت نے اپنی پالیسی میں بنیادی تبدیلی کی ہے کہ جہاں سے تشدد کا راستہ اختیار ہوا کارروائی کی جائے گی، حکومت نیک نیتی اور خلوص سے پاکستان کے وجود اور مستقبل کو محفوظ بنانا چاہتی ہے اگر امن قائم نہ ہوا تو حالات مزید خراب ہونگے۔
انہوں نے کہا کہ پالیسی کا تیسرا حصہ آپریشنل ہے۔ وفاقی حکومت کے گردونواح پونے دو لاکھ غیر رجسٹرڈ لوگ آباد تھے،موجودہ حکومت نے اسلام آباد کے ہر گھر کے ا ندر رہائش پذیر افراد کی رجسٹریشن کی۔ مالکان اور کرایہ داروں کی تفصیلات اکٹھی کیں۔ اسلام آباد کے 51 ہزار گھروں کا ریکارڈ ہمارے پاس موجود ہے۔
انہوں نے بتایا کہ بیرونی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے تین سو گھر کرایہ پر لینے کے معاملے کا بھی جائزہ لے رہے ہیں۔ اسلام آباد کے گردونواح میں 24 کچی آبادیوں میں 82 ہزار افراد کی رجسٹریشن کر رہے ہیں۔ ماضی میں کرائے کے گھر میں نیکٹا کا ادارہ ماضی میں قائم کیا گیا جس کا کرایہ بھی ادا نہیں کیا گیا یہ صورتحال افسوسناک ہے۔
وفاقی وزیر داخلہ کے مطابق فوری رسپانس فورس قائم کی جائے گی جس کا دائرہ کار صوبوں تک پھیلایا جائے گا، کاؤنٹر ٹیرورازم فورس کو ہیلی کاپٹر دینگے۔ وزارت داخلہ میں سیکورٹی اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے درمیان سول آرمڈ فورسز کی کوآرڈینیشن بہتر بنانے کیلئے سیل قائم کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ ہماری حکومت پوری نیک نیتی اور سیاست کو بالائے طاق رکھ کر ملک کو اس عفریت سے نجات دلانے کیلئے آگے بڑھے گی ۔
تبصرے (2) بند ہیں