کیا مصباح، معین تاریخ دوہرا پائیں گے؟
کرکٹ کے ایشیائی معرکے کا کل سے آغاز ہونے جا رہا ہے جہاں موجودہ حالات میں اسے پاکستانی اعتبار سے اہم ترین ایونٹ قرار دیا جائے تو غلط نہ ہو گا۔
اہم ترین اس لیے کہ کرکٹ کے ڈھانچے میں حالیہ تبدیلیوں کے بعد پاکستان اس کھیل میں تنہائی کا شکار ہو گیا ہے اور صورتحال یہ ہے کہ ملکی سرزمین پر کرکٹ سے محروم قومی ٹیم کو ٹورنامنٹ میں جیت سے کم کچھ درکار نہیں کیونکہ یہی فتح اس کے مستقبل کا تعین کرے گی۔
اس معاملے کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ خود چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ(پی سی بی) نجم سیٹھی نے گزشتہ دنوں ایک بیان میں کہا تھا کہ ہمارے پاس کھونے کو کچھ نہیں، اب ہمیں دنیا پر اپنی اہمیت ثابت کرنی ہے اور یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب ہماری ٹیم ایشیا کپ اور ورلڈ ٹی ٹوئنٹی سے سرخرو لوٹے۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ یہ ایونٹ ایک ایسے موقع پر بنگلہ دیش میں منعقد ہو رہا ہے کہ جب وہاں پاکستان مخالف جذبات اپنی عروج پر ہیں اور ملک میں سیکورٹی خدشات کے باعث ایونٹ کو ڈھاکا سے منتقل کر دیا گیا ہے۔
ایسی صورتحال میں پاکستان پر خصوصی دباؤ بھی ہوگا لیکن تاریخ شاہد ہے کہ پاکستانی ٹیم دباؤ میں ہمیشہ ہی ایک عجوبے کی طرح ابھر کر سامنے آئی اور کئی تاریخ ساز کامیابیاں حاصل کیں۔
لیکن یہاں پاکستان کے لیے سب سے مثبت امر بنگلہ دیشی سرزمین ہی ہے جہاں اس نے اپنے دونوں ہی ایشیائی ایونٹ اسی سرزمین پر اپنے نام کیے اور ساتھ ہی عجب اتفاق یہ کہ گرین شرٹس کو ٹورنامنٹ جتوانے والے دونوں ہی کپتان معین خان اور مصباح الحق اس وقت ٹیم کا حصہ ہیں جو یقیناً ٹیم کی کارکردگی میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔
ء2000 میں پاکستان کو ایشیائی چیمپیئن بنانے والے معین خان کا یہ بطور کوچ پہلا امتحان ہو گا جنہوں نے اپنی جارحانہ حکمت عملی کی بدولت بطور منیجر سری لنکا کے خلاف پاکستان کو ٹیسٹ میچ میں یادگار فتح سے ہمکنار کرایا تھا۔
سابق ٹیسٹ کرکٹر اور چیف سلیکٹر صلاح الدین صلو نے معین خان کی بطور کوچ تعیناتی کو نیک شگون قرار دیتے ہوئے کہا کہ معین نے ٹیم میں ایک نئی روح پھونکتے ہوئے فائٹنگ اسپرٹ پیدا کر دی ہے۔
'ضروری نہیں کہ ایک ورلڈ کلاس کھلاڑی ورلڈ کلاس کپتان بھی ہو، عبدالحفیظ کاردار ایک اوسط درجے کے کھلاڑی لیکن بہترین کپتان تھے۔ ان کے پاس وہ ٹیم نہیں تھی جو عمران خان، مشتاق محمد یا آصف اقبال کے پاس تھی لیکن کاردار کو فضل محمود اور حنیف محمد جیسے کھلاڑیوں کا ساتھ حاصل تھا جن کا انہوں نے بھرپور طریقے سے استعمال کیا، تو اہم چیز اپنے وسائل کا صحیح طریقے سے استعمال ہے'۔
انہوں نے معین کا موجودہ آسٹریلین کوچ ڈیرن لیمن سے موازنہ کرتے ہوئے کہا کہ ڈیرن لیمن نے آکر جارحانہ حکمت عملی اپنائی، معین بھی اس طرح کے کوچ ثابت ہوں گے، گزشتہ کوچ تو محض ڈرا پر اکتفا کرتے تھے لیکن وہ عمران خان اور کاردار کی طرح فائٹر ہیں اور مصباح کی حکمت عملی کو جارحانہ انداز میں تبدیل کر دیں گے۔
انگلینڈ سے گزشتہ سال ایشز میں شکست کے بعد کوچ مقرر کیے گئے ڈیرن لیمن نے ناکامیوں سے دوچار آسٹریلین اسکواڈ کو یکسر تبدیل کرتے ایک جارحانہ دستے کی شکل دے دی تھی جس کی بدولت کینگروز نے انگلینڈ 5-0 کی شکست سے دوچار کیا تھا۔
صلو نے معین کو طویل عرصے کے لیے کوچ بنانے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ دو ہفتوں یا مہینوں کوئی کچھ نہیں کرسکتا۔
تاہم سابق چیف سلیکٹر نے ٹیم کی فیلڈنگ پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ فیلڈنگ ہمارا سب سے کمزور پہلو ہے، سابق فیلڈنگ کوچ جولین فونٹین اس سلسلے میں کوئی بہتری لانے میں ناکام رہے، نئے کوچ شعیب محمد کو اس شعبے میں کافی کام کرنا ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ جنوبی افریقہ، انگلینڈ اور آسٹریلیا کے فیلڈرز اپنی شاندار فیلڈنگ سے باؤلرز کی مدد کرتے ہیں، ہمیں اپنے اندر وہی جذبہ بیدار کرنا ہو گا، ہمارے باؤلرز اچھے ہیں اور اگر انہیں فیلڈنگ سے مدد مل جائے تو جیت کے امکانات بڑھ جائیں گے۔
ایک سوال کے جواب میں صلو نے کہا کہ ظہیر عباس کے بیٹنگ کنسلٹنٹ بنائے جانے سے ٹیم کو بہت معاونت ملے گی، وہ ایک ورلڈ کلاس کھلاڑی تھے، ہماری بیٹنگ ہمیشہ سے ایک مسئلہ رہی ہے اور مجھے پوری امید ہے کہ ظہیر عباس ہمارے کھلاڑیوں کی بیٹنگ تکنیک کو بہتر بنا کر اس کمزوری کو کافی حد تک دور کردیں گے۔
سابق چیف سلیکٹر نے کہا کہ ہماری ٹیم کی جیت کے روشن امکانات ہیں کیونکہ وکٹیں اور کنڈیشنز ان کے مطلب کی ہوں گی، یہاں وکٹیں عام طور پر سیدھی اور بیٹنگ کے لیے سازگار ہوتی ہیں۔
صلو نے ٹیم کو متوازن قرار دیا تاہم اسکواڈ میں تجربہ یونس خان اور سرفراز احمد کو شامل نہ کیے جانے پر افسوس کا اظہار کیا۔
'یونس خان کو ایک روزہ ٹیم میں ہونا چاہیے تھا، یہ ایسا کھلاڑی ہیں جن کے گرد ٹیم گھومتی ہے اور ہمیں ان کی ٹیم میں ضرورت پڑے گی۔ سرفراز احمد کو شامل نہ کیا جانا بھی مایوس کن ہے، ہر کوئی سنگاکارا، ایڈم گلکرسٹ یا دھونی نہیں ہوتا، سرفراز ایک نیچرل وکٹ کیپر اور ہر طرز کی کرکٹ کھیل سکتا ہے، شارجہ ٹیسٹ میں شاندار بیٹنگ کارکردگی کے بعد وہ ٹیم میں جگہ حاصل کرنے کا حقدار تھا'۔
سابق کھلاڑی نے دو مارچ کو روایتی حریف ہندوستان کے خلاف ہونے والے مقابلے کو ایونٹ کا سب سے بڑا میچ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس میچ میں ہمیں مارو یا مرجاؤ کی حکمت عملی اپنانی ہو گی۔
'ہندوستان ابھی نیوزی لینڈ سے ایک روزہ میچز 4-0 سے ہارا اور پھر ٹیسٹ سیریز بھی ہار گیا تو ان کا مورال ڈاؤن ہو گا، انڈین ٹیم اور ان کے کھلاڑی اچھے ہیں لیکن ہمیں مثبت سوچ کے ساتھ صرف جیت کے لیے میدان میں اترنا چاہیے'۔