تشویش کے باوجود پاکستان کی مدد جاری رکھیں گے: امریکہ
واشنگٹن: امریکہ نے پاکستان کو یاددہانی کرائی ہے کہ شدت پسندوں کے خلاف جنگ اور اپنے شہریوں کا تحفظ کرنا اس کی اپنی ذمہ داری ہے، تاہم اس سلسلے میں دوسرے پاکستان کی صلاحیتوں میں اضافے کے لیے مدد کرسکتے ہیں۔
یہ بات امریکی محکمہ خارجہ میں ہفتےِ اختتام کے دوران کہی گئی اور دہشت گردی سے نمٹنے کی اسلام آباد کی حکمتِ عملی پر واشنگٹن کی پریشانی اظہار کرتے ہوئے امریکہ کا کہنا تھا کہ یہ حکمتِ عملی پاکستانی کے لیے ایک خطرہ بن گئی ہے۔
تاہم، امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان میری ہاف نے اعتراف کیا کہ پاکستان کو اس خطرے کا علم ہے جس سے نمٹنا اس کی ذمہ داری ہے۔
میری ہاف کا کہنا تھا کہ 'پاکستانی حکومت کی طرح ہمیں اب بھی پاکستان میں شدت پسندی پر تشویش ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ شدت پسندی سے خود پاکستان بہت زیادہ متاثر ہوا ہے اور ہم اس سلسلے میں پاکستانی حکومت کی مدد جاری رکھیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ 'ہم یقینی طور پر انسدادِ دہشت گردی کے حوالے سے پاکستان کے شراکت دار ہیں ، لیکن امریکہ پوری دنیا میں انسداد ِ دہشت گردی کے مسائل کو حل نہیں کرسکتا'۔
انہوں نے کہا کہ لہٰذا، ہم ہمیشہ اس پر کام کرتے رہیں گے۔
خیال رہے کہ طالبان کی جانب سے خطرات سے نمٹنے کے سلسلے میں پاکستانی حکومت کی حکمتِ عملی پر واشنگٹن میں امریکی حکام اور تھنک ٹینک کے ماہرین کی بہت گہری نظر ہے، جبکہ امریکی میڈیا بھی حکومت اور طالبان کے درمیان جاری مصالحتی عمل میں خاص دلچسپی لے رہا ہے۔
امریکی میڈیا میں طالبان اور حکومت کے درمیان مذاکرات کی رپورٹس میں اس بات کا ذکر کیا گیا ہے کہ مصالحتی عمل میں دونوں جانب سے جن لوگوں کو چنا گیا ان کے پاس اصل اختیار نہیں ہے نہ تو طالبان اور نہ ہی حکومت ان تجاویز پر عملدرآمد کرسکتے ہیں جن سے مذاکرات نتیجہ خیز ہوسکیں۔
محکمہ خارجہ کی بریفنگ کے دوران ایک صحافی نے کہا کہ اگرچہ طالبان پاکستانی حکومت کے ساتھ مذاکرات کررہے ہیں، لیکن انہوں نے اپنے حملوں میں عام شہری اور حکومت کو نشانہ بنانا بند نہیں کیا اور اس کے بجائے ان حملوں میں تیزی آئی ہے۔
میری ہاف نے اس بات سے اتفاق کرتے ہوئے صحافی کو یاد دلایا کہ یہ پاکستان کی اپنی ذمہ داری ہے کہ وہ ان خطرات سے کیسے نمٹتا ہے اور دوسرے صرف اس سلسلے میں مدد کرسکتے ہیں۔
اس دوران محکمہ خارجہ کی ترجمان سے سوال کیا گیا ہے امریکی وزیر خارجہ جون کیری جو ان دنوں چین کے دورے پر ہیں، کیا وہ اس معاملے پر چین کے ساتھ بات چیت کریں گے۔
جواب میں میری ہاف کا کہنا تھا کہ انہیں اس بارے میں کوئی علم نہیں کہ آیا جان کیری چین کے ساتھ اس معاملے پر تبادلہ خیال کریں گے یا نہیں۔