• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm

علاقائی خدشات

شائع February 16, 2014
انقرہ میں سہ فریقی مذاکرات، پاک افغان تعلقات میں حائل رکاوٹوں کا حل فوج یا سفارت کاری؟ اے ایف پی فائل فوٹو۔۔۔۔
انقرہ میں سہ فریقی مذاکرات، پاک افغان تعلقات میں حائل رکاوٹوں کا حل فوج یا سفارت کاری؟ اے ایف پی فائل فوٹو۔۔۔۔

یہ وہ وقت ہے کہ جب ترکی میں منعقدہ سہ فریقی سربراہی اجلاس میں دنیا کے مختلف حصوں کی دلچسپی پیدا ہوچکی اور اس کے نتیجے میں پاک ۔ افغان تعلقات میں بڑی یا کم ازکم کسی چھوٹی پیشرفت کی توقع ضرور ہے۔

وہ زمانے تو بہت پہلے گذرچکے، یہاں ایک چھوٹا نمونہ پیشِ نظر ہے کہ انقرہ میں جمعرات کو سہ فریقی سربراہی اجلاس میں شرکت کرنے والے ہر رہنما کے آگے رکھی پلیٹ میں کیا کچھ رکھا تھا۔

افغان رہنما کے لیے: اہم صدارتی انتخابات کی راہ جہاں کوئی رہنما نمایاں نہیں اور معاملات ممکنہ طور پر موسمِ گرما کے آخر تک کھنچ سکتے ہیں۔ صدر کرزئی کی میراث کی حفاظت اور بعد از انتخابات کے اثرات؛ اور پھر سن دو ہزار چودہ کے بعد، امریکا کے ساتھ ایسے معاہدے کی حتمی شکل، جس کے تحت کچھ غیر ملکی فوجی دستے افغانستان میں موجود رہ سکیں گے۔

پاکستانی قیادت کے لیے: داخلی سطح پر اسلامی شدت پسندوں کی پُرتشدد باغیانہ کارروائیوں کا خاتمہ، جس نے ریاست کی کلائی مروڑ دی اور وہ تشدد کے سلسلے کا خاتمہ کرنے کے لیے حل کی تلاش میں ہے چاہے وہ قلیل المدت ہی کیوں نہ ہو۔

ترک قیادت کے لیے: اپنے دروازے پر کھڑے شامی بحران سے نمٹنا، مشرقِ وسطیٰ میں دھندلائے عرب موسمِ بہار کے زیادہ خطرناک اور ضرر رساں اثرات؛ اور ممنکہ طور پر اعلیٰ سطح پر اختیارات کا انتظام، جدوجہد میں مصروف وزیِرِ اعظم جنہیں شاید توقع ہے کہ وہ براہ راست پہلی بار ترکی کے منتخب صدر بن کر وسیع اختیارات حاصل کرپائیں گے۔

لہٰذا ایسے میں، کیا یہ پاک ۔ افغان تعلقات میں مرکزی نوعیت کے حامل دو تحفظات، افغان طالبان سے مصالحت اور سرحد کے آر پار (دونوں جانب سے) باغیانہ تحریک کے خاتمے کو چھوڑ دیتا ہے؟

پہلی نظر میں تو ان دونوں اہم معاملات پر زیادہ پیشرفت دکھائی نہیں دیتی لیکن پھر بھی انقرہ سربراہی کانفرنس میں دو ایسے شرکا تھے جو لو پروفائل رہے: آرمی چیف جنرل راحیل شریف اور ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی جنرل ظہیرالاسلام۔

ان دونوں جنرلوں کی موجودگی سے پتا چلتا ہے کہ بند دروازوں کے پیچھے گرما گرم گفتگو اور ممکنہ طور پر سودے بازی، ہوچکی۔ کم ازکم بین السرحد باغیانہ سرگرمیوں کے حوالے سے دونوں ملکوں کے درمیان پہلے کے مقابلے میں اب تعاون کی زیادہ گنجائش موجود ہے۔

افغانستان کی جانب سے پاکستان پر الزامات لگائے جاتے رہے ہیں تاہم حالیہ برسوں خاص طور پر گذشتہ برس کے دوران، بڑھتی الزام تراشیوں سے ان کاروائیوں پر پریشانیوں کا اظہار ہوتا ہے جو پاک ۔ افغان سرحدی علاقوں سے متصل افغانستان کے متعدد علاقوں میں کی جاتی رہی ہیں۔

خطرہ افغانستان کی طرف سے ہے، کرائے کی لڑائی اور آنکھیں بند کر کے بیٹھ جانے کے پرانے کھیل کا نیا انداز، اب ان کے ہاتھوں کھیل سکتا ہے، خاص طور پر جناب کرزئی کا بڑھتا ہوا یہ عزم کہ ملک چاہے چھوٹا ہو یا بڑا، وہ افغان مفادات کے تحفظ کے لیے سب کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہیں۔

انقرہ میں سینئر پاکستانی فوجی قیادت کی موجودگی شاید سلامتی کی آخری حد تک جانے کا اشارہ ہے، جس سے یہ بات سمجھنی چاہیے کہ دونوں ملکوں کے درمیان موجود مسائل کا حل تلاش کرنے کی خاطر کیوں نہ سفارتکاری کو ترجیح دی جائے۔

انگریزی میں پڑھیں

ڈان اخبار

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024