ملک اور اکمل پر اتنی مہربانی ، آخر کیوں؟
پاکستان کرکٹ بورڈ(پی سی بی) نے بنگلہ دیش میں شیڈول ایشیا کپ اور ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کے لیے اسکواڈ کا اعلان کر دیا ہے جہاں چند اہم نوجوان کھلاڑیوں کو نظر انداز کرنے کے ساتھ ساتھ ایک بار پھر ماضی میں ناکامی سے دوچار ہونے والے کھلاڑیوں پر انحصار کرنے کا خطرہ مول لیا گیا ہے۔
پاکستان کے لیے سب سے بڑا دھچکا طویل قامت محمد عرفان کا انجری کے باعث سیریز سے باہر ہونا ہے لیکن اس پوری سلیکشن میں سب سے زیادہ افسوسناک بات ٹی ٹوئنٹی ٹیم سے نوجوان آل راؤنڈر انور علی کو باہر کرنا ہے حالانکہ اس بات میں کوئی دو رائے نہیں وہ اس وقت پاکستان کو دستیاب بہترین نوجوان آل راؤنڈر ہیں اور مستقبل میں ایک بڑے نام کے طور پر ابھر کر سامنے آ سکتے ہیں لیکن بظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انہیں نام نہاد سینئرز کو ٹیم کا حصہ بنانے کے لیے قربانی کا بکرا بنا دیا گیا۔
شعیب ملک اور کامران اکمل کی ٹی ٹوئنٹی ٹیم میں شمولیت کسی اچھنبے سے کم نہیں خصوصاً شعیب کی حالیہ کارکردگی کسی طور انہیں ٹیم میں شمولیت کا حقدار نہ بناتی تھی۔ ٹی ٹوئنٹی ٹورنامنٹ میں سیالکوٹ اسٹالینز کے کپتان کی واحد بہتر اننگ 65 رنز کی تھی جبکہ اسلام آباد کے خلاف کھیلی گئی 49 رنز کی اننگ کے لیے انہوں نے 52 گیندوں کا سہارا لیا تھا۔
یہاں ملک کی شمولیت اس لیے بھی قدرے متنازع ہے کیونکہ سابق کرکٹر باسط علی نے حال ہی میں سیالکوٹ اور کراچی ڈولفنز کے میچ پر شکوک کا اظہار کرتے ہوئے میچ فکسنگ کا الزام عائد کیا تھا، ایسی صورت میں بورڈ کو بطور احتیاط ملک کو قومی ٹیم سے دور رکھنا چاہیے تھا کیونکہ ان الزامات کے سائے میں ان کی موجودگی عالمی ایونٹ میں ٹیم کی کارکردگی پر اثر انداز ہو سکتی ہے۔
رہی بات کامران اکمل کی تو انہوں نے ڈومیسٹک سیزن میں کچھ اچھی اننگ ضرور کھیلیں لیکن موجودہ صورتحال خصوصاً عمر اکمل کی اسکواڈ میں موجودگی کی صورت میں ان کی ٹو ٹوئنٹی ٹیم میں شمولیت پر سوالیہ نشان برقرار ہے۔
یہاں سلیکشن کمیٹی سے سوال یہ ہے کہ کامران اکمل کو کس نمبر پر بھیجا جائے گا، کیا انہیں بطور اوپنر کھلایا جائے گا جہاں پہلے سے ہی کپتان محمد حفیظ، احمد شہزاد اور شرجیل خان کی صورت میں اس پوزیشن کے تین دعویدار موجود ہیں، وکٹ کیپر بلے باز کی مڈل آرڈر میں سابقہ پرفارمنس بھی ان کی ٹیم میں جگہ نہیں بناتی کیونکہ وہ ان نمبروں پر شازونادر ہی کوئی بڑی اننگ کھیلنے میں کامیاب ہوئے ہیں اور وکٹ کیپنگ میں ان ریکارڈ کسی سے بھی ڈھکا چھپا نہیں۔

اب ذرا کچھ اچھی باتیں جہاں فواد عالم کو ڈومیسٹک کرکٹ میں شاندار پرفارمنس کا انعام ایک روزہ ٹیم میں شمولیت کی صورت میں ملا۔ فواد نے پریذیڈنٹ ٹرافی کے 10 میچوں کی 14 اننگز میں دو سنچریوں اور چار نصف سنچریوں کی مدد سے 658 رنز بنائے جہاں ان کی فی اننگ اوسط 54 سے زائد رہی۔
لیکن دراصل یہ ایک روزہ میچز میں شاندار کارکردگی تھی جو ان کی ٹیم میں واپسی کا موجب بنی، بائیں ہاتھ کے بلے باز نے دس میچوں کی آٹھ اننگز میں دو سنچریوں اور دو نصف سنچریوں کی مدد سے 438 رنز بنائے جبکہ ان کی اوسط 87 رنز سے زائد رہی۔
جہاں فواد کی ٹیم میں واپسی ہوئی وہیں اسد شفیق کو ایک عرصے سے خراب فارم کا خمیازہ ٹیم سے باہر ہونے کی صورت اٹھانا پڑا جنہوں نے گزشتہ گیارہ اننگ میں صرف ایک نصف سنچری اسکور کی۔
ٹیم کے لیے ایک اور خوش آئند امر تجربہ کار عمر گل کی اسکواڈ میں واپسی ہے جس سے کسی حد تک عرفان کی کمی کا ازالہ ہو جائے گا۔
لیکن اب یہ دیکھنا ہو گا کہ آیا گل کو واقعی فٹ ہونے کے بعد ٹیم کا حصہ بنایا گیا ہے کیونکہ اس سے قبل بھی انہیں فٹ قرار دے کر سری لنکا کے خلاف سیریز کا حصہ بنایا گیا تھا لیکن ان کی صحتیابی کا اندازہ اس بات سے لگایا جس سکتا تھا کہ وہ سیریز کے تمام پانچ میچز کھیلنے سے بھی قاصر رہے تھے اور دوبارہ انجری کا شکار ہو گئے۔
دونوں ایونٹ کے اسکواڈ میں نوجوان محمد طلحہ کو بھی شامل کیا گیا ہے جو ابھی تک ایک روزہ اور ٹی ٹوئنٹی میں قومی ٹیم کی نمائندگی کے منتظر ہیں۔
مجموعی طور پر دیکھا جائے تو ایک روزہ میچز کا اسکواڈ خاصا متوازن دکھائی دیتا ہے لیکن ٹی ٹوئنٹی میں چند تبدیلیاں اس دستے کو مزید بہتر شکل دے سکتی تھیں۔
اس سلسلے میں ایک چیز قابل غور ہے کہ پاکستان نے آسٹریلیا کی چال چلنے کی کوشش کی جنہوں نے اپنے ٹیم میں کئی ایک سینئر کھلاڑیوں خصوصاً 43 سالہ بریڈ ہوگ کو شامل کیا لیکن وہ یہ بات بھول گئے ان کھلاڑیوں کی شمولیت کی وجہ تسلسل سے مقامی ٹی ٹوئنٹی لیگ بگ باش اور قومی ٹیم میں پرفارمنس تھی۔
اب دیکھنا ہے کہ آیا یہ چال کارگر ثابت ہوتی ہے یا پاکستان بھی دوسروں کے نقش قدم چلتے چلتے اپنی چالیں بھلا بیٹھے گا، جیسا کہ مشہور ہے کہ 'کوا چلا ہنس کی چال، اپنی چال ہی بھول گیا'۔
تبصرے (1) بند ہیں