قذافی پر قبضہ
ایک شخص جو عام انتخابات میں اپنی جماعت کی شکست کے باوجود پاکستان کرکٹ بورڈ کے اعلیٰ منصب پر برقرار رہنا چاہتا ہے۔ ایک نگراں سربراہ پی سی بی کا چیئرمین بننے جارہا ہے۔ عدالتی جنگ ہے۔ مفادات کے ٹکراؤ پر الزامات اور کرکٹ کی براہ راست کوریج کے حقوق چہیتوں کو دینے کا معاملہ ہے۔ یہ ہیں ماضی کی باتیں۔ یہ تیزی سے چلتی فلم ہے۔
وزیرِ اعظم نواز شریف نے پیر کو، ذکاء اشرف کو بطور چیئرمین پی سی بی، عہدے سے ہٹا کر اپنے پسندیدہ نجم سیٹھی کو دوبارہ منصب پر لانے کی راہ ہموار کردی تھی۔ پی سی بی معاملات کی دیکھ بھال کے لیے جناب سیٹھی پہلی بار مئی دو ہزار تیرہ میں اس وقت مقرر کیے گئے جب عدالت نے ذکاء اشرف کی بطور بورڈ چیئرمین، تقرری کو غیر قانونی قرار دے دیا تھا۔
ایک دلچسپ موڑ آیا اور تقریباً تین ہفتے قبل جناب اشرف عدالت ہی کے ذریعے کھوئے منصب پر بحالی میں کامیاب ہوگئے۔ انہیں آئی سی سی کے اہم ترین اجلاس میں شرکت کی اجازت دی گئی جہاں دنیائے کرکٹ پر اختیار حاصل کرنے کے لیے ہندوستان، آسٹریلیا اور برطانیہ پر مشتمل بِگ تھری کی تجویز زیرِ بحث آئی، پاکستان نے سختی سے تجویز کی مخالفت کی۔
اس کڑی آزمائش سے گذرنے کے بعد جب جناب اشرف وطن واپس پہنچے تو اصولی موقف اختیار کرنے پر تعریف کی تلاش تھی لیکن ان پر جو الزامات لگے، اُن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ فارغ کیے گئے چیئرمین نے آئی سی سی میں پاکستان کا کیس غلط طریقے سے پیش کیا لیکن اگر یہی بات ہے تو پھر سوال ہے کہ انہیں یہ کیس پیش کرنے کی اجازت ہی کیوں دی گئی تھی؟
یقینی طور پر، آئی سی سی اجلاس سے قبل ہی انہیں پی سی بی سے برطرف کر کے معاملات نجم سیٹھی کے 'محفوظ ہاتھوں' میں واپس دیے جاسکتے تھے۔
اس کے علاوہ، جناب اشرف کو جس طرح شرمناک انداز میں برطرف کیا گیا، وہ رویہ جمہوریت، مفاہمت اور قانون کی بالادستی کی قسمیں کھانے والے منتخب حکمرانوں کو قطعی زیب نہیں دیتا۔ من پسندوں کو اُن کے عہدوں پر بحال کرنے کی خاطر پی سی بی کے قواعد و ضوابط میں تبدیلیاں کی گئیں۔
جناب اشرف کا بیان ریکارڈ پر ہے کہ اگر وزیرِ اعظم نے انہیں منصب چھوڑنے کا کہا تو وہ اس ہدایت پر عمل کریں گے، جسے اعلیٰ اخلاقی اقدار پر کاربند رہنے کی کوشش کے طور پر بھی دیکھا جانا چاہیے۔ یہ بھی پیشِ نظر رہے کہ بار بار کی درخواست کے باوجود وزیرِ اعظم نے ان سے ملاقات کی زحمت گوارا نہیں کی۔
ذکاء اشرف کی برطرفی اور جس طرح پی سی بی کی نئی کمیٹی نے اپنی مکمل فتح کے لیے فوری طور پر قذافی اسٹیڈیم میں واقع ہیڈ کوارٹر پر قبضہ جمایا، اس عمل میں طاقت اور تکبر کا بھی ایک عنصر شامل تھا۔
ایک بار پھر چیئرمین بننے والے جناب سیٹھی نے پاکستان کے لیے اچھے وقت کا وعدہ کیا ہے۔ توقع ہے کہ پاکستانی کرکٹ کے لیے وہ موجودہ حالات میں ممکنہ طور پر بہتر سودے بازی کرپائیں گے۔
سچ تو یہ ہے کہ اپنے تمام تر اختیارات و طاقت کے باوجود آئی سی سی، تمام تر کمزوریوں اور مسائل سے دوچار پاکستان کو ہرگز نظر انداز نہیں کرسکتا۔ کھیل ختم ہونے سے بہت دور ہے اور حقیقی معنوں میں پاکستان کو خاتمے کا کوئی خطرہ نہیں۔
پاکستان کا شمار کرکٹ کے بڑے کھلاڑیوں میں ہوتا ہے۔ اس کی کشش اور ٹیلنٹ کی دنیا بھر میں پہچان ہے، جسے آسانی سے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔