خودمختار اسٹیٹ بینک
اچھی اقتصادی پالیسی کے لیے اسے سنگِ بنیاد خیال کرسکتے ہیں: ایک خود مختار مرکزی بینک جو مستحکم شرح نمو کے فروغ، افراطِ زر پر نظر رکھنے اور پاکستانی تناظر میں تعمیر کی بنیاد پر ترقی کو رجحان بخشنے کی خاطر، حکومتِ وقت کی پالیسی سے مربوط ہو کر کام کرے۔ لیکن اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے گورنر، جن کے عہدے کی معیاد طے شدہ ضمانت ہے، انہیں وزیر خزانہ کے مطالبے پر جبراً مستعفی ہونا پڑے، اس تناطر میں، مرکزی بینک ایک بار پھر روایتی طور پر وزارتِ خزانہ کے ماتحت ادارہ بن چکا ہے۔
کمزور اور غیر معتبر مالیاتی پالیسی کی موجودگی میں بینکاری شعبے کے قواعد و ضوابط کے تحت آسان قرض یا ان کی نوعیت کو فوری سمجھنا اس کے واسطے آسان نہیں، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ملکی معیشت کے انتظام میں اسٹیٹ بینک کاکردار اہم نہیں۔
مایوس کُن طور پر، پاکستان مسلم لیگ ۔ نون کی حکومت نے بھی اپنی پیش رو پی پی پی حکومت کے اس رجحان کو ہی مزید تیزی بخشی، جس کے تحت حکومت کے لیے اسٹیٹ بینک کی حیثیت لامحدود طور پر قرض حاصل کرنے کے ایک وسیلے سے زیادہ کچھ زیادہ نہیں، جس کی وجہ سے روایتی طور پر بینک پالیسی کا کردار محدود ہو کر صفر ہوچکا۔
اسٹیٹ بینک کا باضابطہ ادارتی کردار کیا ہونا چاہیے اور اس کی خاطر اسے کس قسم کی قیادت درکار ہے؟
سچ تو یہ ہے کہ اسلام آباد میں موجود حکومت نے معیشت کے کم از کم بہاؤ کو برقرار کھنے اور حکومتی مالیاتی پوزیشن کو تباہی سے بچانے کی خاطر کچھ خاص نہیں کیا، ایسے میں یہ بہت کم معنیٰ خیز ہے کہ اسٹیٹ بینک افراطِ زر کو قابو میں رکھتے ہوئے مستحکم شرحِ نمو کی خاطر سازگار ماحول فراہم کرسکے۔
اگر اسے حکومت کی طرف سے زیادہ آزادی میسر ہو تو وہ چیزوں کی بہتری کے لیے کچھ کرسکتا ہے تاہم اسٹیٹ بینک بذاتِ خود ملکی معیشت کا رخ پلٹ نہیں سکتا۔ شرحِ سود، حکومتی قرض اورافراطِ زر کی شرح ایک طرف، پھر بھی اسٹیٹ بینک، کم از کم جامع اور شرح نمو پر مبنی حکمتِ عملی تشکیل دینے کے واسطے، میدان تیار کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔
یہ بھی کم نہیں ہوگا کہ اسٹیٹ بینک، حکومت سمیت، آسان اور خود کار طریقے سے انہیں قرض فراہم کے بجائے، اگر بینکاری شعبے کو زیادہ جارحانہ طور پر قرض دینے کے مواقع تلاش کرنے کی خاطر ان کی حوصلہ افزائی کرے۔
چھوٹے اور وسطی پیمانے پر جاری کاروبار کو قرض فراہم کرنے کی راہیں تلاش کرکے بھی، بینکاری شعبہ ترقی اور روزگار کے مواقع تخلیق کرنے میں مدد دے سکتا ہے جو کہ حقیقی ملکی ضرورت بھی ہے۔
جیسا کہ قیاس آرائیاں ہیں کہ اگلا گورنر اسٹیٹ بینک، بینکاری پس منظر کا حامل اور حکومتی منشا کے مطابق چلنے والا ہوسکتا ہے تو کیا ایسا گورنر، اسٹیٹ بینک کی سمت کو ازسرِنو درست کر کے مقاصد کا ازسرِ نو تعین کرسکے گا؟
اگرچہ حقیقت کی دنیا میں، بزنس مین اور بینکاروں کے درمیان مہربان تعلق کا تجربہ ہے، نیز بینکار بزنس مین کو انکار بھی نہیں کرتے تاہم جامع اقتصادی پالیسی اگر غیر معاشی ماہرین (نان اکانومسٹ)، بینکاروں کی مدد سے تشکیل دیں تو پھر ملکی ضروریات کے مطابق بھرپور صلاحیتوں سے استفادہ، محدود ہوجاتا ہے۔
موجودہ حکومت کی اقتصادی پالیسیوں کے خالق وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار، اقتصادی بحالی اور بقا کے پائیدار اور جامع حل کے بجائے روزانہ کی بنیاد پر مسائل اور ماہانہ بنیاد پر بقا کا حل تلاش کرنے میں زیادہ دلچسپی لیتے دکھائی دیتے ہیں۔
گورنر اسٹیٹ بینک کی صورت میں ایک روایتی ماتحت کے بجائے، جناب ڈار کی ضرورت یہ ہے کہ انہیں وہاں سے ایک آزاد اور مستند آواز سننے کو ملے۔