افغانستان میں صدارتی مہم کا آغاز
کابل: افغانستان میں ہونے والے صدارتی انتخاب کا اتوار کو باقاعدہ آغاز ہو گیا ہے، اس حوالے سے پوسٹر لگ گئے ہیں، ریلیوں کو منظم کیا جا رہے جبکہ ٹیلی وژن پر انتخاب پر بحث کے پروگرام ترتیب دیئے گئے ہیں۔
پانچ اپریل ، افغانستان میں تیرہ سالہ غیر ملکی مداخلت کے بعد ملک کی تاریخ کا اہم لمحہ ہو گا جس کے نتائج ملک کے مستقبل سے وابستہ ہیں۔ ان انتخابات میں گیارہ صدارتی امیدوار حصہ لے رہے ہیں۔
کسی بیرونی براہ راست مدد کے بغیر افغانستان میں صاف و شفاف انتخابات کے انعقاد کے لئے حکومت نے اربوں ڈالر کی رقم مختص کی ہے۔
طالبان کی جانب سے تشدد کے واقعات میں اضافے اور سال کے اختتام پر نیٹو فوجوں کی واپسی کے باوجود انتخابات افغانستان میں اقتدار کی منتقلی ایک اہم امتحان ہو گا اور مغرب کی ان انتخابات پر خاص نظر ہے جس سے افغانستان میں گزشتہ بارہ سال سے جاری صورتحال کو کچھ تبیدل کرنے اور سیکیورٹی بہتر بنانے کا موقع ملے گا۔
افغانستان میں انتخابات کو سیکورٹی کی صورتحال، کرزئی کے رویے، طالبان کے حملوں جیسے کئی چیلنجز کا سامنا ہے۔ اور انہیں جواز بنا کر انتخابات کو ملتوی کیا جاسکتا ہے۔
طالبان یہ دعویٰ بھی کرچکے ہیں کہ بین الاقوامی افواج کے انخلا کے بعد وہ ملک پر دوبارہ تسلط حاصل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
مبصرین افغانستان کی سکیورٹی فورسز کی نسبتاً کمزور استعداد کو مدنظر رکھتے ہوئے ملک میں امن و امان کی صورتحال کے مزید بگڑنے کا خدشہ بھی ظاہر کر رہے ہیں۔
کرزئی 2001 میں امریکا کی زیر قیادت نیٹو افواج کے افغانستان پر حملے کے بعد طالبان حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد اقتدار میں آئے تھے۔
صدر حامد کرزئی افغان آئین کے تحت تیسری مدت کیلئے صدارتی انتخاب لڑنے کے اہل نہ ہونے کی وجہ سے دوڑ سے باہر ہیں۔
انہوں نے امریکا کے ساتھ سیکورٹی معاہدہ انتخابات سے مشروط کیا ہے جس کے تحت دو ہزار چودہ کے بعد بھی کچھ امریکی فوجی دستے افغان فوج کی مدد اور القاعدہ کی باقیات کا صفایا کرنے کے لئے افغانستان میں رہ سکیں گے۔
مبصرین کے مطابق صدارتی امیدواروں میں سب سے مضبوط پوزیشن سابق وزیر خزانہ عبداللہ عبداللہ کی ہے۔
عبداللہ نے 2009ء میں حامد کرزئی کے خلاف صدارتی انتخاب میں حصہ لیا، تاہم وہ دوسرے مرحلے میں دستبردار ہو گئے تھے۔