علاقائی حقیقت
دونوں فریقین کی جانب سے اکثر و بیشتر تعلقات کی قدرو قیمت کے اظہار کی کوشش ہوتی رہتی ہے تاہم سن دو ہزارچودہ اور اس سے آگے پاک ۔ امریکا تعلقات کی شکل و صورت کیا ہوگی، یقینی طور پر یہ افغانستان کے حالات طے کریں گے۔
تعلقات پر اس کے اثرات سے کہیں آگے، حتیٰ کہ خود داخلی استحکام کی کلیدی اہمیت سمیت، یقینی طور پر، کم از کم خود پاکستان کے لیے یہ بات اہم ہے کہ افغانستان میں آگے کیا ہوتا ہے۔
لہٰذا، سلامتی میں معاونت اور توانائی شعبے میں تعاون کے لیے پاکستان اور امریکا کے درمیان ہونے والے مذاکرات اہم ہیں تاہم ان کی توجہ کہیں اور بھی ہونی چاہیے: جیسا کہ خود مشترکہ وزارتی اعلامیہ کے ایک حصے کے الفاظ ہیں 'علاقائی امن و استحکام کی طرف پیشرفت۔
اس حصے میں حوالے موجود ہیں: 'پُرامن، مستحکم، آزاد اور متحدہ افغانستان' (اس ضمن میں مطلوبہ ریاست کی لچکدار تعریف کی خاطر، آزاد کی اصطلاح اضافی اور نئی نظر آتی ہے)؛ 'خطّے کے تمام ممالک کی طرف سے افغانستان میں عدم مداخلت کی پالیسی'؛ 'افغان قیادت کے ماتحت امن اور مفاہمتی عمل'؛ 'افغان قیادت کے ماتحت مفاہمتی عمل میں پاکستان کا اہم کردار'؛ 'سرحدوں کا کنٹرول بہتر بنانا'؛ نیز 'سیاسی عمل میں شمولیت اور افغان حکومت کے ساتھ مذاکراتی عمل میں شرکت کے لیے طالبان پر زور دینا' بھی شامل ہیں۔
اچھے اقدامات کےطور پر 'پاکستان اور ہندوستان کے درمیان بہتر باہمی تعلقات، استحکام اور خوش حالی کی اہلیت رکھنے' کا بھی حوالہ دیا گیا ہے۔
ان سطور کے درمیان ایک معروف سطر تہ سے ابھر کر سامنے آتی ہے: امریکا اور پاکستان کے درمیان مذاکرات اچھی بات ہے لیکن سن دو ہزار چودہ کے بعد، مستحکم افغانستان کا مقصد حاصل کرنے کی خاطر اس سے بہت کم ٹھوس نتیجہ نکلتا ہے۔
اگرچہ اس وقت تمام تر نظریں جلد منعقدہ افغان صدارتی انتخابات اور سیماب صفت صدر حامد کرزئی پر لگی ہیں جو بظاہر پُرعزم نظر آتے ہیں اور سب یہ قیاس کررہے ہیں کہ کیا ہونے جارہا ہے، ایسے میں یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ آنے والے چند ماہ میں افغان حکومت کس طرح دکھائی دے گی۔
اس کے باوجود وہاں کچھ اچھی خبریں ضرور موجود ہیں: کم از کم، بظاہر امریکا اور پاکستان ایسے تمام مشترکہ آپشنز کی تلاش اور ان پر رضامند ہونے کے قابل نظر آتے ہیں کہ جس سے وہ دونوں آئندہ برسوں کے دوران افغانستان کو مزید بحرانوں میں گرنے سے روک سکیں۔ اگر افغانستان کو افراتفری کی حالت میں چھوڑ دیا گیا تو اس سے ان دونوں کو ہی نقصان پہنچے گا۔
پاکستان کے لیے اضافی بوجھ موجود ہے، یہ جانتا ہے کہ ایک غیر مستحکم افغانستان کی خاطر وہ کئی برِ اعظموں دور واقع سپر پاور کی توہین کا متحمل نہیں ہوسکتا۔
یہ جاننے کے باوجود کہ افغانستان کی گتھی کو سلجھانا دونوں کے لیےمعجزاتی ہوسکتا ہے لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ بُرے نتائج سے بچنے کے لیے امریکا اور پاکستان مشترکہ طور پر ہی اقدامات کریں گے۔
امریکا اور پاکستان، یہاں پر دونوں کے جائز سیکیورٹی مفادات داؤ پر لگے ہوئے ہیں۔ اس خاطر دونوں ہی خاموشی کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ مصروفِ عمل ہیں (جیسا کہ اسٹریٹیجک مذاکرات کی بحالی سے ظاہر ہوتا ہے)۔
کسی ایک کو تباہ کُن صورتِ حال سے دوچار کرنے کے بجائے، مشترکہ اقدامات کے ذریعے مفید نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں۔