تحریک انصاف اور عام آدمی پارٹی: کامیابی اور ناکامی
میں سمجھتا ہوں کہ شاید کچھ لوگ مجھ سے ناراض ہونگے- یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے نارنگی کا سیب سے مقابلہ کیا جائے خصوصاً ان دونوں معاشروں میں واضح فرق کی وجہ سے، ان کی سیاسی تاریخ اور سیاست کی نوعیت کی وجہ سے-
لیکن، پھر بھی میں سمجھتا ہوں کہ یہ موضوع اس قابل ہے کہ اس پر کچھ خیال آرائی کی جاسکتی ہے کیونکہ کافی باتوں میں ان دونوں میں بہت ساری چیزیں مشترک ہیں- اور میں صرف تقسیم کے قبل کی تاریخ کے تعلق سے یہ بات نہیں کررہا ہوں یعنی ہماری مشترکہ زبان اور تہذیبی ورثہ وغیرہ۔ بلکہ ہماری موجودہ سیاست کے حوالے سے بھی-
اس گستاخانہ حرکت کے دفاع میں دو نکات ہیں، میں ان کی وضاحت کرنے کی کوشش کروں گا-
ان دونوں پارٹیوں یعنی پاکستان میں 'تحریک انصاف' اور ہندوستان میں 'عام آدمی پارٹی' کے سامنے سب سے بڑی وجہ حکومت اور سیاست میں بڑے پیمانے پر بدعنوانی کا وجود ہے- بدعنوان سیاست دان الیکشن جیت کر حکومتیں بناتے ہیں جو ان کو تحفظ فراہم کرتی ہیں اور بدعنوانی کو بڑھانے میں مددگار ہوتی ہیں- ان دونوں پارٹیوں نے آگے کی جانب سفر کیلئے اس "گندگی کی صفائی" کی ہی نشاندہی کی ---یہی راستہ درمیانی طبقہ کی زندگیوں کو آسان بنا سکتا ہے اور نچلے، پچھڑے طبقے کو فائدہ، یہ ایک نکتہ ہے-
دوسری مشترک بات، یہ کہ دونوں یہ محسوس کرتے تھے کہ ووٹر ایک مشکل صورت حال سے دوچار ہوتے تھے کہ انتخاب میں ان کی مرضی کا دخل نہیں تھا ان کے سامنے متبادل نہیں تھے- لوگ ایک یا دوسری پارٹی کو انتخاب میں جتاتے ہیں لیکن ان کے حکمرانی کے طریقے، معاشی پالیسیوں اور دیگر چیزوں میں کوئی فرق نہیں ہوتا تھا اس لئے انتخابات بےفائدہ ہوگئے تھے اور لوگ "سیاست" سے بیزار ہوگئے تھے- اس لئے دونوں پارٹیوں نے اپنے آپ کو تیسرے آپشن کے طور پر پیش کیا، تبدیلی کے وعدے کے ساتھ کہ وہ نیا سیاسی کلچر رائج کرینگے-
پی ٹی آئی 1997 اور 2002 کے انتخابات میں ناکام رہی تھی، 2008 کے انتخابات کا اس نے بائیکاٹ کیا تھا اور 2013 کےانتخابات میں میڈیا کے مبالغہ آمیز اندازوں کے باوجود، ان کی کارکردگی اپنی خود کی امیدوں سے بھی بہت کم تھی-
دوسری طرف اے اے پی نے اپنے پہلے ہی انتخابی عمل میں بڑی کامیابی حاصل کرکے ہر ایک کو حیرت میں ڈال دیا اور انتخابات سے پہلے، جو اپریل اور مئی میں ہونے والے ہیں، دوسری مستحکم سیاسی جماعتوں کا دن کا چین اور رات کی نیند حرام کررہی ہے-
کچھ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ اے اے پی کو کامیابی وقت سے بہت پہلے مل گئی ہے جس کی وجہ سے اس پارٹی کی نشونما پر اثر پڑ سکتا ہے- حالانکہ آئندہ چند سالوں میں اے اے پی کی کیا شکل ہوگی یہ ایک بالکل علیحدہ موضوع ہے-
تو، کیا ہندوستان میں ووٹرز پاکستان کے مقابلے میں 'تبدیلی' سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں؟
کچھ لوگ فوراً ہاں کہہ اٹھیں گے لیکن میں اس موقع کو لیکر یہ دیکھنا چاہونگا کہ دونوں پارٹیوں کے سیاسی نقطۂ نظر اور انتخابی کامیابیوں کی طرف ان کی حکمت عملی کیا ہے-
میں سنجیدگی سے اس بات میں یقین رکھتا ہوں کہ اس میں ہر اس شخص کیلئے ایک سبق موجود ہے جو صحیح معنوں میں سیاسی تبدیلیاں دیکھنے کے خواہشمند ہیں- اے اے پی کے مقابلے میں پی ٹی آئی میں کیا کمی تھی اوراس نے کہاں ٹھوکر کھائی وہ یہ ہے؛
پی ٹی آئی نے لوگوں سے چاند کا وعدہ کیا | اے اے پی لوگوں کو کچھ دینے کی صلاحیت کے بارے حقیقت پسند تھی-
,عام آدمی پارٹی کا 2013ء کا دہلی الیکشن منشور دیکھ لیں ایسا لگتا ہے جیسے کسی این جی او کا تیار کیا ہوا باقاعدہ منصوبہ- قابل تصدیق حوالے اور تصدیق کرنے کے ذرائع کے ساتھ مکمل، مختصر، واضح اور بالکل قابل عمل-
مثال کے طور پر آپ لے لیں -- پانی، ایک ایجنڈا آئیٹم، انہوں نے ایک دن میں 700 لٹر تک استعمال کرنے والے گھرانوں کو مفت پانی دینے کا وعدہ کیا؛ دہلی واٹر بورڈ کے کام کرنے میں شفافیت، اور مستقبل میں بارش کے پانی کو پورے شہر میں قابل استعمال بنانے کا منصوبہ-
بدعنوانی پر قابو پانے کیلئے ایک نیا قانون جو تمام سرکاری افسروں پر لاگو ہوگا؛ محدود مدت میں تحقیقات اور بدعنوانی کے مقدموں کا فوری فیصلہ؛ وزیروں، ایم ایل اے اور سیکریٹریوں کے خلاف فیصلے چھ مہینے سے ایک سال کے اندر-
اگر آپ کی سوچ اتنی عملی اور عوامی ہوگی تو آپ اپنے ووٹروں کا اعتماد جیتنے میں ضرور کامیاب ہونگے- انسان کا اتنا حقیقت پسند ہونا میڈیا کی نظرمیں سونامی لانے کے بڑے بڑے دعووں اور 90 دنوں میں کایا پلٹ کے نعرے کے مقابلے میں بالکل پرکشش نہیں ہے لیکن بات جب وعدوں کو پورا کرنے کی ہوتی ہے، تواس سے آپ کا سیاسی قد بڑھتا ہے- دوسری طرف، اگر آپ چاند لانے کے وعدے سے شروع کریں اور پتہ یہ چلے کہ یہ سب ایک دھوکہ تھا، تو آپ لازمی طور پر مار کھائینگے-
پی ٹی آئی بہرحال یہ نہیں سمجھ سکی کہ انتخابی وعدے صرف اپنے حامیوں کے جذبات جگانے یا میڈیا کو جوش دلانے کیلئے نہیں کئے جاتے ہیں؛ ان کا مقصد، انتخاب جیتنے کی صورت میں، ان کو پورا کرنا ہوتا ہے- ان کے وعدے غیر حقیقی تھے اور ان کا حل اس سے مختلف نہیں ہے جو لوگ پہلے سے کررہے ہیں یا وہ وعدے جو دوسرے لوگ بھی کرتے ہیں-
چلئے مثال کے طور پر دیکھتے ہیں کہ توانائی (energy) کے بارے میں پی ٹی آئی کا منشور ( اس کی معاشی پالیسی کا ایک حصہ - کیا کہتا تھا. اس نے وعدہ کیا کہ یہ ایک توانائی ایمرجنسی نافذ کریگی تاکہ پاکستان توانائی کے بارے میں مکمل طور پر محفوظ ہو جائے، اورسب سے پہلی چیزجو وہ کرنا چاہیں گے وہ "سرکولر قرضہ" کے مسئلے کو حل کرنے کیلئے پیداواری قیمت کو کم کریں گے-
آپ پیداواری قیمت کو کیسے کم کرسکتے ہیں (جوزیادہ تر نجی کمپنیاں پیدا کرتی ہیں) جب کہ تیل کی عالمی قیمتوں کے بارے میں آپ کچھ بھی نہیں کرسکتے ہیں؟ پی ٹی آئی کا منشور پڑھئے تو ایسا لگتا ہے جیسے کسی ہجوم کا نعرہ ہو، بجائے کسی سوچے سمجھے اور عملی اقدامات کے جو حالات کو بہتر بنانے کیلئے اپنائے جائیں-
پی ٹی آئی اقتدار حاصل کرنے کیلئے بے چین ہے / عام آدمی پارٹی اصولوں کی بات کرتی ہے-
عام آدمی پارٹی نے دہلی سے اپنا پروگرام شروع کیا ہے- جس کی حیثیت ایک ریاست یا صوبہ سے بھی کم ہے- "دہلی کی حیثیت ایک ریاست کے طور پر" اس کے منشور کا ایک حصہ ہے- ان کی حکمت عملی ایک چھوٹے پیمانے پر کام شروع کرکے، اس کی بنیادوں کو بڑھانا اور پھیلانا ہے- اس کے برخلاف پی ٹی آئی مکمل اور حتمی اقتدار سے کم کچھ نہیں چاہتی تھی-
1997ء میں اس کے پہلے انتخاب کے موقع پر، اس کی تشکیل سے ایک سال کے بعد، اس نے قومی اسمبلی کی 207 سیٹوں کیلئے 134 سیٹوں پر اپنے امیدوار کھڑے کئے تھے (نتیجہ: کوئی سیٹ نہیں؛ 314٫820، 1٫65 فی صد ووٹ)- پی پی پی کے 160 امیدوار تھے اور پی ایم ایل- ن کے 176امیدوار تھے- 2002ء میں، پی ٹی آئی نے 94 سیٹوں پر انتخاب لڑا، ایک سیٹ ملی اور مجموعی طور پر 242٫472 ووٹ حاصل کئے-
اس کے لیڈر نے ہمت ہار دی اور اس نتیجے پر پہنچے کہ ان کا "فین کلب" ان کو وہ پوزیشن نہیں دلاسکتا ہے جس کا حصول ان کا مقصد ہے تو 2013 کے انتخابات میں انہوں نے اپنی حکمت عملی بدل دی اور اپنی پارٹی کی صفوں کو انتخاب "جیتنے والوں" سے بھردیا-
سیاست کو بدعنوانیوں سے پاک صاف کرنے کے ان کے موقف سے یہ مکمل طور پر متضاد بات تھی. وہی سیٹ جیتنے والے اب پارٹی کے مرکزی عہدوں پر براجمان ہیں اور فیملی کے گروپ فوٹوز میں مسکراتے ہوئے نظر آتے ہیں-
اگرعام آدمی پارٹی جانے پہچانے بی جے پی اور کانگریس کے چہروں کو اپنے ساتھ شامل کرے، تو یقیناً یہ اپنی شناخت کھو دیگی اور ابھی تک اس قسم کے کوئی آثار نہیں کہ یہ ایسا خودکش راستہ اپنائے- پارٹی کا کہنا ہے: "سیاست میں آنے کا ہمارا مقصد اقتدار میں آنا نہیں ہے؛ ہم اس لئے آئے ہیں کہ موجودہ بدعنوان اور خود غرضی پر مبنی سیاست کے نظام کو ہمیشہ کیلئے بدل دیں تاکہ آئندہ اقتدار میں کوئی بھی آئے، تو سسٹم اتنا مضبوط ہو کہ اس میں بدعنوانی کو حکومت کی ہر سطح پر روکنے کی صلاحیت ہو"-
پی ٹی آئی کی ترجیحات خارجہ پالیسی کے مسائل | عام آدمی پارٹی کی توجہ کا مرکز عام آدمی کی تکالیف 2013ء میں، پی ٹی آئی نے پی ایم ایل-ن اور پی پی پی دونوں کے مقابلے میں زیادہ امیدوارکھڑے کئے تھے (پی ٹی آئی: 232، پی پی پی: 229، پی ایم ایل-ن: 217 تمام سیٹوں کی مجموعی تعداد: 272)- اس کو اتنی کم سیٹیں ملیں کہ یہ حزب مخالف بھی نہیں بن سکی لیکن پھر بھی اتنی سیٹیں مل گئیں کہ خیبرپختونخوا میں صوبائی حکومت بن سکتی تھی-
عام آدمی پارٹی نے دہلی کی لیجسلیٹواسمبلی کے 70 لوگوں کے ایوان میں 28 سیٹیں جیتیں اور حلف اٹھانے کے بعد سے ہر روز ایک نہ ایک نیا قدم اٹھا رہی ہے، اپنے ان وعدوں کو پورا کرنے کیلئے جو اس نے لوگوں سے کئے تھے- ابھی بھی انہیں بہت کچھ کرنا ہے لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ انہوں نے اپنی توجہ مقصد سے نہیں ہٹائی ہے-
پی ٹی آئی کی خاص دلچسپی، بہرحال، ملک کی خارجہ پالیسی اور عالمی سیاست (خصوصاً سازشی) میں ہے اور یہ سب اپنے جیتے ہوئے صوبے پر توجہ اور حکمرانی میں بہتری لانے کی قیمت پر ہے-
اس میں کوئی شک نہیں کہ پی ٹی آئی کو خارجہ پالیسی پر اپنی ایک رائے رکھنے اور اس کو پھیلانے کا حق ہے، لیکن میری تنقید کا مقصد پارٹی کی نشوونما کی حکمت عملی ہے-
اے اے پی کے اہم رہنماؤں میں سےایک نے حالیہ دنوں میں کہا تھا کہ پارٹی کشمیر میں ریفرینڈم کرانے کا ارادہ رکھتی ہے- لیکن پھر پارٹی نے فوراً ہی پلٹ کر دوسرا بیان دیا جو بالکل متضاد تھا- یہ تو ممکن نہیں ہے کہ اے اے پی کشمیر، جارحیت، ہند و پاک تعلقات اور ماؤ بغاوت وغیرہ کے بارے میں کوئی رائے نہ رکھتی ہو- اور یہ بھی بہت حد تک ممکن ہے کہ ان کے خیالات ان دوسری پارٹیوں سے، جو حالات کو جوں کا توں رکھنا چاہتی ہیں بالکل مختلف ہوں-
بہرحال، سمجھداری کا ثبوت دیتے ہوئے وہ کسی ایسے مسئلے میں نہیں الجھنا چاہتی ہے جس میں فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہو اور جو نہ صرف ان کی تحریک پر بلکہ ان کی عوامی مہم پر بھی اثر انداز ہوسکتی ہے اور میڈیا کی توجہ ان کے ایجنڈے سے بھٹک سکتی ہے- وہ اپنی توجہ انہیں مسائل پر مرکوز رکھنا چاہتی ہے جو اس مثالی عام آدمی کو متاثرکرتے ہیں --- پانی، بجلی وغیرہ اور باقی چیزیں اس وقت کیلئے چھوڑ دیتی ہے جب اسے کرنے کا وقت آئیگا-
پی ٹی آئی نےایک مخالف راستہ چنا، یہ اپنی شروعات ہی ان عالمی طاقتوں کو بے نقاب کرکے کرنا چاہتے تھے جو پاکستان کے معصوم مسلمانوں کے خلاف سازشیں کررہی تھیں، اور ان کی بھلائی اور بہتری کے کام عالمی بدی کے خلاف لڑائی ختم کرنے کے بعد کرینگے-
کیا پنجاب میں بھٹے میں اینٹیں بنانے والے مزدور کو یا سندھ میں جبری مشقت کرنے والے ہاری کو اس سے کوئی فرق پڑتا ہے کہ آپ امریکہ کے ساتھ آنکھیں ملا کربات کرسکتے ہیں یا نہیں؟
یہ نہ بھولیں کہ ملک کی 40 فیصد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی بسر کررہی ہے اور تقریباً اتنے ہی فیصد خط غربت سے ذرا اوپر ہیں- پی ٹی آئی نے ایسے لوگوں کا دل جیتنے کیلئے کوئی مشکل راستہ نہیں چنا بلکہ اس کے بجائے الیکشن جیتنے والےعوامل کے ذریعے ایسے لوگوں کا ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کی-
پی ٹی آئی کی خارجہ پالیسی پر اپنی توجہ مرکوز کرنے کی ایک وجہ یہ ہے کہ اس کے مطابق 20 فیصد خوشحال شہری جو ٹی وی دیکھتے ہیں، وہ پی ٹی آئی کے اصلی حامی ہیں- بین الاقوامی باتوں کے بارے میں گفتگو زیادہ آسان ہوتی ہے کیونکہ آپ کو کچھ ثابت کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی-
اگر آپ کی کسی متنازعہ بات کے ردعمل پر میڈیا میں کوئی بحث چھڑجائے تب، آپ پر کسی ٹھوس کام کی ذمہ داری کا بوجھ بھی نہیں ہوتا، سوائے مضحکہ خیز احتجاجی مظاہروں کے جو ایک بار پھر میڈیا کی توجہ کا مرکز بنتے ہیں- جس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ آپ ایک بار پھر اپنی ناکامی کی ذمہ داری بین الاقوامی سازشوں پر ڈال سکتے ہیں- اس مضحکہ خیز چکر کا نقصان یہ ہے کہ آخر میں، آپ کے الفاظ لوگوں کو امیدیں دلانے میں ناکام ہو جاتے ہیں-
پی ٹی آئی شخصیت پرستی کا سحر ہے | اے اے پی ایک سیاسی پارٹی ہے
اے اے پارٹی قومی سطح کی پارٹیوں کی بدعنوانیوں پر سخت تنقید کرتی ہے لیکن اس تنظیم کا داخلی مزاج کسرنفسی سے عبارت ہے- وہ نہ صرف وی آئی پی کلچر کے خلاف ہیں بلکہ انہوں نے اس کی مثالیں بھی قائم کیں- ان کیلئے، کفایت شعاری کی ابتدا اپنے گھر سے ہوتی ہے- ان کا کام کرنے کا طریقہ شفاف ہے اور پارٹی میں احتساب کا ایک نظام موجود ہے-
پی ٹی آئی بھی اسی طرح تنقید کرتی ہے لیکن اس کا تنقید کرنے کا انداز درشت اور تکبّر سے بھرا ہے- ان کی پارٹی کے جوشیلے کارکن نہ صرف دوسرے لیڈروں سے نفرت کا اظہار کرتے ہیں بلکہ عام ووٹروں کو بھی لتاڑتے ہیں اگر وہ ان کی پارٹی کی حمایت نہ کریں تو- ایسے رویہ کی امید آپ عام آدمی پارٹی سے ہرگز نہیں کرسکتے ہیں-
سب سے اہم بات یہ ہے کہ، انہوں نے پارٹی کا ایک تفصیلی ڈھانچہ اور ممبرشپ کا نظام ترتیب دیا ہے اور ان کا زور اس نظام کو مضبوط تر کرنے پر ہے- جیسے جیسے وہ طاقتور اور مقبول عام ہوتی جاتی ہیں ان کا اس راستے پر قائم رہنے کا عزم پکا ہوتا جاتا ہے-
اس کے برعکس، پی ٹی آئی صرف اپنے لیڈر کی شخصیت کے گرد گھومتی ہے --- جوعمران خان ہیں- اس پارٹی کا کوئی ایجنڈا نہیں ہے --- بس صرف اس کے لیڈر کی شہرت-
پی ٹی آئی کے انتخابی امیدواروں کا اصل مطالبہ یہ ہوتا ہے کہ عمران خان ان کے حلقۂ انتخاب کا دورہ ضرور کریں- اور ہمیں پتہ ہے کہ ان کی پارٹی کے ایک امیدوار نے اس بات پر پارٹی چھوڑ دی تھی کہ وہ وہاں نہیں جاسکے تھے- پارٹی کا خیال ہے کہ عمران خان کی شہرت اس پارٹی کا سب سے بڑا اثاثہ ہے- دوسرے لفظوں میں پی ٹی آئی کا سارا دھڑا عمران خان کی شخصیت پر کھڑا ہے -
میں اسے دوسری طرح سے پیش کرتا ہوں- ایک لمحہ کے لئے سمجھئے کہ عمران خان کسی وجہ سے پارٹی چھوڑ دیتے ہیں تو کیا پارٹی اسی راستے پر چلتی رہیگی یا باقی بھی رہیگی یا نہیں؟ یا پھر پی ایم ایل کیو کی طرح دوسرے درجہ کی پارٹی بن جائیگی؟
اب اگر آروند کیجریوال پارٹی چھوڑ دیتے ہیں کیا یہ پارٹی کا اختتام ثابت ہوگا؟ اس سے پارٹی مشکل میں ضرور پڑ جائیگی لیکن ان کے لیڈر سے زیادہ ایجنڈہ کو اہمیت دینے کی وجہ سے، اس پارٹی کااپنی راہ پر چلتے رہنے کا امکان زیادہ ہے-
صاف ظاہر ہے، پی ٹی آئی کے معاملے میں ایک فرد واحد کا کرشماتی وجود سیاست کا باعث ہے، اور اے اے پی کے معاملے میں پارٹی کی سیاست کرشماتی ہے نہ کہ فرد واحد-
ترجمہ: علی مظفر جعفری