مذاکراتی کمیٹی کے اراکین۔ حیرت، بے یقینی اور عدم اعتماد کا شکار
اسلام آباد: دہشت گردی کی لعنت سے نمٹنے کے لیے وزیراعظم نے ایک کمیٹی کی تشکیل کے تازہ ترین فیصلے سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ اقدام انہوں نے انتہائی عجلت اور مناسب تیاری کے بغیر اُٹھایا ہے۔
پارلیمنٹ میں دو دن سے جاری قیاس آرائیوں اور باہر آنے والی رپورٹوں میں کہا جارہا تھا کہ وہ قومی اسمبلی میں حاضر ہوں گے جس سے وہ کئی مہینوں سے گریز کر رہے تھے، اور پھر وزیراعظم یہ اعلان کرنے واقعی اسمبلی پہنچ گئے کہ انہوں نے تحریک طالبان پاکستان کی حالیہ مذاکرات کی پیشکش کے جواب میں ایک چار رکنی کمیٹی تشکیل دی ہے۔
ان کا یہ اعلان بہت سے لوگوں کے لیے حیرت کا باعث تھا۔
یہ کمیٹی سینیئر صحافی رحیم اللہ یوسف زئی، حال ہی میں وزیراعظم کے خصوصی معاون مقرر کیے گئے کالم نگار عرفان صدیقی، آپریشن مڈنائٹ جیکال فیم انٹرسروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے سابق اہلکار میجر ریٹائرڈ عامر اور سابق سفیر اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے ایک رکن رستم شاہ مہمند پر مشتمل ہے۔
اس کمیٹی پر بہت سی وجوہات کو لے کر سارا دن طویل تبادلہ خیال جاری رہا، ان وجوہات میں سے زیادہ تر منفی تھیں۔
سب سے پہلے تو ان میں سے دو اراکین ایک میڈیا گروپ سے تعلق رکھتے ہیں، جسے حکومت کے ساتھ ایک مرتبہ پھر بہت زیادہ قریب دیکھا جارہا ہے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کے آخری چیئرمین کا تعلق بھی اسی گروپ سے ہے۔ اور اس وقت عرفان صدیقی کو محض چند دن پہلے ہی وزیراعظم کا خصوصی مشیر مقرر کیا گیا تھا۔
دوسرے یہ کہ اس کمیٹی کا کوئی رکن سیاستدان نہیں ہے، جہاں تک سیاسی طبقے کا تعلق ہے خصوصی اور عمومی طور پر اس کی ساکھ کا اثر پڑے گا۔
تیسرے یہ کہ ان میں سے کسی کو بھی ٹی ٹی پی کے ساتھ کسی معروف روابط کے حوالے سے پہچانا نہیں جاتا ہے۔
چوتھا یہ کہ یہ کہنا مشکل ہے کہ وہ کس طرح ایک منتخب حکومت کی جانب سے اختیارات کا استعمال کریں گے۔
پانچواں یہ کہ وہ کس سے مذاکرات کریں گے(اس لیے کہ فاٹا میں طالبان کے بہت سے گروپ متحرک ہیں) اور یہ بھی اب تک واضح نہیں ہے کہ وہ کیا بات کریں گے۔
چھٹا یہ کہ اس کے لیے کوئی وقت مقرر نہیں کیا گیا ہے کہ مذاکرات کی حالیہ کوششیں کس قدر طوالت اختیار کریں گی۔
بلاشبہ نواز شریف کے فیصلے نے کسی کو بھی متاثر نہیں کیا، ان میں اس کمیٹی کے اراکین بھی شامل ہیں، جنہوں نے دیے ہدف کو نیم دلی کے ساتھ قبول کیا ہے۔
ان چاروں اراکین کا فوری ردّعمل جیسا کہ انہوں نے الیکٹرانک میڈیا سے بات کرتے ہوئے ظاہر کیا، یعنی اس مشن کے بارے میں ان کی ناقص معلومات اور ان کا یقین اور یہ کہ انہوں نے نواز شریف کے ذاتی اصرار پر یہ پیشکش قبول کی۔
صبح ملنے والی حیرت انگیز خبر
مثال کے طور پر رحیم اللہ یوسف زئی نے ڈان کو بتایا کہ وزیر اعظم نے صبح کے وقت انہیں یہ پیشکش کی جب وہ (نواز شریف) قومی اسمبلی جارہے تھے۔
رحیم اللہ یوسف زئی نے کہا ”میں حیرت زدہ تھا۔“ انہوں نے واضح کیا کہ پنجاب کے وزیرِ قانون اور واشنگٹن میں سرتاج عزیز کے بیانات کے ذریعے میں اندازہ لگایا تھا کہ حکومت نے فوجی آپریشن شروع کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔
افغانستان کے لیے سابق پاکستانی سفیر اور پی ٹی آئی کے رہنما رستم شاہ مہمند کا ردّعمل تو اس سے بھی بُرا تھا۔ میڈیا پر اپنے پہلے ردّعمل میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ اس کمیٹی میں ان کی نامزدگی سے پہلے وزیراعظم نے ان سے مشورہ نہیں کیا تھا۔
وزیراعظم نے اپنی تقریر کے دوران کہا تھا کہ پی ٹی آئی کی قیادت میں خیبرپختونخوا کی مخلوط حکومت نے رستم شاہ مہمند کا نام تجویز کیا تھا۔
جیسا کہ کچھ لوگوں کی جانب سے دعویٰ کیا جارہا ہے کہ رستم شاہ مہمند کے نام کو شامل کرکے مسلم لیگ نون نے دو طرفہ مقاصد حاصل کیے ہیں، ایک تو پی ٹی آئی کو ذمہ دار بنا کرمذاکرات کے راستے پر ڈال دیا، اور اس کی جانب سے جاری تنقید سے بھی بچاؤ کرلیا، جیسا کہ پی ٹی آئی سب سے زیادہ پی ٹی آئی کی طرف سے مکالمے کی حمایت اور طاقت کے استعمال پر تنقید کی جاتی رہی ہے۔
حکمرانوں کی سب سے بڑی الجھن
رحیم اللہ یوسف زئی نے تسلیم کیا کہ وہ اس فریم ورک کے بارے میں نہیں جانتے جس کے تحت دہشت گردوں کے کس گروپ کے ساتھ بات چیت کے لیے کہا جائے گا۔ کیا انہیں بات چیت کی اجازت دی جائے گی یا نہیں اور کب یاانہیں اجازت دی جائے گی کہ وہ حکومت کی طرف سے کسی قسم کا کوئی معاہدہ کرسکیں۔
انہوں نے کہا ”ہم صرف ایک مددگار کا کردار ادا کریں گے، اس لیے کہ ہر فیصلہ حکومت اور طالبان کی جانب سے ہی لیا جائے گا۔“
تعجب کی بات نہیں ہوگی جب کہ ان میں سے زیادہ تر حالیہ اقدام کے نتائج پر مایوس ہوں، اور صورتحال کو پیچیدہ قرار دیں۔
رحیم اللہ یوسف زئی نے قوم کو مشورہ دیا کہ وہ بہت زیادہ توقعات قائم نہ کرے۔
ایک ممکنہ حکمت عملی کے بارے میں انہوں نے کہا کہ طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے حوالے سے حکومت کی جانب سے کیے گئے اقدامات کی ناکامی کی وجوہات کو سب سے پہلے جاننا ہوگا۔
رستم شاہ مہمند کی بات چیت سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہ کسی بھی طرح کی زیادہ امید نہیں رکھتے۔ ایک نیوز چینل سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ انہیں خوف ہے کہ طالبان کے ایسے گروپس جو امن مذاکرات کے خلاف ہیں، اس نئے اقدام کو سبوتاژ کرسکتے ہیں۔
وہ سب اپنی شرائط کی تفصیلات پیش کرسکتے ہیں،لہٰذا حکومت کو طالبان کے ممکنہ مطالبات کے حوالے سے اپنی پالیسی واضح رکھنی ہوگی، ان میں ایسی شرائط بھی شامل ہوسکتی ہیں کہ ان کے قیدیوں کو رہا کیا جائے اورفاٹا سے فوج کو واپس بلایا جائے۔
عرفان صدیقی نے کل شام اپنی پریس کانفرنس میں ایسے کسی سوال کا جواب نہیں دیا کہ وہ کن شرائط پر بات کریں گے اور وہ کس سے بات کریں گے۔ وہ کہہ سکتے تھے کہ طالبان بھی ایک کمیٹی تشکیل دیں گےلیکن یہ واضح نہیں کرسکے کہ کون سے طالبان ہیں جن کا وہ حوالہ دے رہے ہیں۔
تعجب کی بات نہیں کہ ایک سیاستدان یا ایک تجزیہ نگار کے لیے اس بارے میں اعتماد کا اظہار کرنا مشکل ہوگا کہ یہ کمیٹی کیا حاصل کرپائے گی۔
بہت سے لوگوں نے اسے ایک جال قرار دیا ہے، ان کے خیال میں یہ نوزائیدہ اقدام مسلم لیگ کو باآسانی یہ دعویٰ کرنے کی اجازت دے گا کہ اس نے مذاکرات کے آپشن کے لیے اپنی بہترین کوششیں کی تھیں۔
مثال کے طور پر ایک مبصر نے کہا کہ یہ کمیٹی اس لیے تشکیل دی گئی ہے کہ بالفرض مذاکرات ناکام ہوجاتے ہیں تو تنقید سے بچاجاسکے گا۔ مزید یہ کہ اس کے علاوہ یہ معذرت خواہوں کو بھی خاموش کردے گی۔ایک دوسرے صحافی نے ایک ٹوئٹ میں دعویٰ کیا کہ یہ کمیٹی خاموشی کے ساتھ شروع ہونے والے فوجی آپریشن کی جانب سے توجہ ہٹانے کی ایک کوشش ہے۔
یہ کمیٹی زیادہ سے زیادہ کیا حاصل کرپائے گی، یہ کسی بھی پیش گوئی کرنے والے کے لیے کہنا مشکل ہوگا۔
رحیم اللہ یوسف زئی:
پشاور سے تعلق رکھنے والے ساٹھ برس کے تجربہ کار صحافی، جن کی صحافی برادری اور سیاسی حلقوں میں اچھی شہرت ہے۔ انہیں پہلا صحافی سمجھا جاتا ہے جنہوں نے 1990 کی دہائی سے طالبان سے متعلق رپورٹنگ شروع کی۔ انہوں نے 1995ء میں قندھار کا دورہ کیا تھا اور انہیں القاعدہ کے سابق سربراہ اسامہ بن لادن کے انٹرویوز کے حوالے سے بھی جانا جاتا ہے۔
رحیم اللہ یوسف زئی تاحال دی نیوز انٹرنیشنل کے پشاور بیورو میں بطور ایڈیٹر کام کررہے ہیں۔ انہیں افغانستان کے امور کا ماہر سمجھا جاتا ہے اور وہ قبائلی زندگی کے سماجی و سیاسی محرکات پر مکمل معلومات رکھتے ہیں۔
میجر ریٹائرڈ عامر خان:
میجر عامر اور برگیڈیئر امتیاز ”آپریشن مڈنائٹ جیکال“ کے دو مرکزی کردار تھے، جسے مبینہ طور پر 1989ء میں عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے بے نظیر بھٹوکی پہلی حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے شروع کیا گیا تھا۔
آئی ایس آئی کے سابق رکن خیبر پختونخوا کے سابق وزیراعلٰی سردار مہتاب عباسی کے خصوصی مشیر رہ چکے ہیں اور وزیراعظم نواز شریف کے قریبی معاون بھی تھے۔
میجر عامر کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ تاحال طالبان کے کچھ گروپس کے ساتھ قریبی روابط رکھتے ہیں، اور ٹی ٹی پی کے نئے سربراہ مولوی فضل اللہ ان کا بہت احترام کرتے ہیں اس لیے کہ ان کے والد نے صوابی کے گاؤں پنج پیر میں اشاعت توحید و سنت کی تحریک کی شروعات میں اہم کردار ادا کیا تھا۔
اطلاعات کے مطابق اس مدرسے کو میجر عامر کے بھائی چلا رہے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ میجر عامر کے جے یو آئی کے دونوں دھڑوں کے سربراہوں مولانا فضل الرحمان اور مولانا سمیع الحق کے ساتھ خوشگوار تعلقات ہیں۔
پیپلزپارٹی کی گزشتہ حکومت کے دوران یہ اطلاعات ملی تھیں کہ میجر عامر کو اس وقت کے صدر آصف علی زرداری کے ساتھ دیکھا جارہا تھا، اور یہاں تک کہ 2008ء میں سعودی عرب کے دورے کے دوران وہ ان کے ساتھ سرکاری وفد کا حصہ تھے۔
رستم شاہ مہمند:
ایک سینیئر سفارتکار اور سیاستدان جو افغانستان اور وسطی ایشیا کے امور پر مہارت رکھتے ہیں، پی ٹی آئی کے رکن ہیں۔ یہ پارٹی طالبان کے ساتھ مذاکرات کی کٹر حامی ہے۔
اس کےعلاوہ وہ خیبر پختونخوا کی مشاورتی کمیٹی کے بھی ایک رکن ہیں، جس کے سربراہ عمران خان ہیں۔ یہ کمیٹی صوبائی حکومت کو ترقیاتی اور منصوبہ بندی کے معاملات پر مشورے دیتی ہے۔
رستم شاہ مہمند افغانستان میں پاکستانی سفیر اور سیکریٹری داخلہ کے عہدوں پر خدمات انجام دے چکے ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے مہاجرین کے چیف کمشنر کے عہدے پر دس سال تک کام کیا تھا۔
عرفان صدیقی:
پیشے کے لحاظ سے کالم نگار ہیں، اس کمیٹی میں وہ واحد رکن ہیں جو وفاقی حکومت کی نمائندگی کررہے ہیں، اس لیے کہ انہیں حال ہی میں قومی امور کے لیے وزیراعظم کا خصوصی معاون مقرر کیا گیا ہے۔
وہ ”نقش خیال“عنوان سے روزانہ کالم تحریر کرتے ہیں۔ وہ شریف فیملی کے ساتھ اپنے پرانے اور قریبی تعلقات کے حوالے سے جانے جاتے ہیں۔ عرفان صدیقی 1990 کی دہائی میں نواز شریف کی حکومت کےدوران اس وقت کے صدر رفیق تارڑ کے پریس سیکریٹری کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دے چکے ہیں۔