لا پتہ افراد کیس: حکومت کی رپورٹ مسترد
اسلام آباد: سپریم کورٹ نے لا پتہ افراد سے متعلق وفاقی حکومت کی رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے اٹارنی جنرل پاکستان اور صوبے خیبرپختونخواہ کے ایڈووکیٹ جنرل کو دس فروری تک پیش رفت پر مبنی تازہ رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی ہے۔
بدھ کوجسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے مالاکنڈ سے لاپتہ ہونے والے 35 افراد سے متعلق کیس کی دوبارہ سماعت شروع کی۔
سماعت کے دوران خیبر پختونخواہ کے ایڈووکیٹ جنرل شاہ لطیف نے کہا کہ عدالت کو آگاہ کیا گیا تھا کہ لا پتہ افراد سیکورٹی اداروں کی حراست میں ہیں۔
انہوں نے عدالت کو آگاہ کیا کہ خیبر پختونخواہ کی حکومت نے لا پتہ افراد کے مقدمات کا جائزہ لینے کے لئے ایک خصوصی کمیٹی تشکیل دی تھی۔
اٹارنی جنرل سلمان اسلم بٹ نے پیش ہوکر عدالت کو ایک رکنی کمیشن کے قیام کا نوٹیفکیشن پیش کیا اوربتایا کہ کمیشن مقررہ مدت میں یہ امرطے کرے گاکہ ان 35افراد میں سے کتنے لوگ حراستی مراکز میں ہیں‘ کون کس مرکز میں موجود ہے۔
کمیشن ایک ماہ میں وفاق کو اپنی رپورٹ پیش کرنے اور لاپتہ افراد کو حراستی مراکز میں رکھنے والوں کیخلاف کارروائی کی بھی سفارش کرے گا جس کے بعد وفاقی حکومت کارروائی کرے گی‘ ایسے لوگوں کیخلاف ایکشن ضرور لیاجائے گا۔
جسٹس جواد نے کہاکہ جو ادارے وفاق کے ماتحت ہیں ان کیخلاف وفاق اور جو خیبر پختونخوا حکومت کے ماتحت ہیں ان کیخلاف صوبائی حکومت کارروائی کرے۔
اٹارنی جنرل نے حکومت کی جانب سے سپریم کورٹ کو یقین دہانی کرائی کہ حکومت 35افراد کو لاپتہ کرنے والوں کیخلاف کاروائی کیلئے کمیشن کی سفارشات پر عمل کرے گی۔
جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ عدالت شہریوں کے حقوق کی خلاف ورزی برداشت نہیں کرے گی۔
انہوں نے اٹارنی جنرل سے کہاکہ وہ بطورپرنسپل لاء افسر اس معاملے کو سنجیدگی سے لیں اور خود اعلیٰ حکام سے بات کریں اور ایڈووکیٹ جنرل خیبر پختونخوا کے ساتھ بھی رابطہ رکھیں۔
بعدازاں عدالت نے کیس کی سماعت 11فروری تک ملتوی کردی۔