طالبان سے مذاکرات پر اتفاقِ رائے موجود نہیں: بلاول
کراچی: پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ہمارے بہت سے سیاستدان خوف کا شکار ہیں اور وہ طالبان کے معاملے پر ایک واضح مؤقف اختیار نہیں کرسکتے اور ان سے مذاکرات کے معاملے پر ملک میں اتفاقِ رائے قائم نہیں ہے۔
انہوں نے ان خیالات کا اظہار کراچی میں برطانوی خبر رساں ادارے بی بی سی کے ساتھ ایک انٹرویو میں کیا۔
اس موقع پر بلاول کا کہنا تھا بعض بزدل سیاستدان دہشت گردوں اور شدت پسندوں کے خلاف کارروائی کے معاملے پر جان بوجھ کر قوم گمراہ کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم ناکام ہو رہے ہیں کیونکہ ہماری بہادر آوازیں ایک ایک کرکے خاموش ہورہی ہیں، اور اگر ہم سب ایک ہو کر آگے بڑھے تو شدت پسند ہمارا مقابلہ نہیں کرسکتے۔
تحریک طالبان پاکستان سے مذاکرات پر ان کا کہنا تھا کہ ہمیں طاقتور حیثیت سے بات کرنی ہوگی جس کے لیے ہمیں طالبان کو جنگ میں ہرانا ہوگا۔
ان کا کہنا تھا ہم نے جو قومی اتفاقِ رائے قائم کیا تھا وہ اُن سیاستدانوں نے ضائع کر دیا جو اس جنگ کو امریکا کی جنگ سمجھتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے تحفظات کے باوجود طالبان سے بات چیت کے معاملے پر ان کی حمایت کا فیصلہ کیا۔ چھ ماہ بعد مذاکرات کی باتیں تو بہت ہوئی ہیں لیکن عملی اقدام کوئی نہیں۔ ہم نے واضح کیا ہے کہ اگر وہ اب مذاکرات کی بات کرتے ہیں تو وہ غیرمشروط نہیں ہو سکتے۔‘
انہوں نے کہا کہ شرائط یہ ہوں کہ ’جنگ بندی کی جائے اور طالبان ہتھیار پھینک دیں، وہ پاکستان کے آئین کو تسلیم کریں اور اسلامی قوانین کی پابندی کریں۔ مگر تاریخ گواہ ہے کہ ایسی بات چیت کامیاب نہیں ہوتی۔ ہم ماضی میں تجربہ کر چکے ہیں۔
قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں فورسز کے آپریشن سے متعلق بات کرتے کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ہم ملک سے شدت پسندی اور طالبان کا خاتمہ چاہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے ماضی میں بھی بہت مرتبہ مذاکرات کی بات کی ہے، جو ہماری پالیسی کا حصہ بھی ہے، لیکن اس پر کوئی عمل نہیں ہوا کیونکہ شدت پسند ہم سے مسلسل لڑر رہے ہیں۔
ان سے جب یہ سوال کیا گیا کہ آیا وہ پاکستان کے وزیراعظم بننا چاہیں گے؟ تو بلاول کا کہنا تھا کہ میرا مشن وزیراعظم بننا نہیں، بلکہ اس نظریہ کو کامیاب کرنا ہے کہ تمام امن اور ترقی پسند قوتیں متحد ہو کر کام کریں۔