میانمار میں مسلمانوں کا قتلِ عام۔ انسانی حقوق کی تنظیم کا دعویٰ
ینگون: عالمی خبررساں ادارے رائٹرز کی ایک رپورٹ کے مطابق انسانی حقوق کی ایک تنظیم نے کہا ہے کہ 2011ء کے دوران میانمار (برما) میں فوجی حکمرانی کے اختتام کے بعد تشدد کی ایک نئی لہر سامنے آئی ہے، جہاں پچھلے ہفتے سیکیورٹی فورسز نے کم از کم چالیس روہنگیا مسلمانوں کا قتلِ عام کیا۔ حکام نے اس دعوے کو مسترد کردیا ہے۔
بنکاک میں قائم انسانی حقوق کی تنظیم فورٹی فائی رائٹس کا کہنا ہے کہ اس نے اس واقعے کے عینی شاہدین اور دیگر ذرائع سے بات کی ہے جنہوں نے ان ہلاکتوں کی تصدیق کی ہے، اور کہا ہے کہ ہلاک ہونے والوں میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے۔
بین الاقوامی امدادی ایجنسیوں کے دو افسران کا کہنا ہے کہ انہیں اس علاقے میں قتل عام کے ثبوت ملے ہیں۔ ان افسران کو ملک کے دور دراز مغربی علاقوں میں جانے کی اجازت دی گئی تھی ۔ فورٹی فائی رائٹس نے دعویٰ کیا ہے کہ گزشتہ ہفتے پانچ دن تک کئی حملے ہوئے۔
اگرچہ حکومت اور مقامی حکام نے کسی طرح کے قتل عام کے الزامات کی پرزور الفاظ میں تردید کی ہے۔ گزشتہ ماہ مونگاڈو شہر میں روہنگیا مسلمانوں اور پولیس کے درمیان جھڑپوں کی خبریں آئی تھی جس کے بعد اس قتل عام کے واقعہ کے بارے میں معلومات حاصل ہوئی ہیں۔
اگر یہ سچ ہے تو یہ واقعہ اکتوبر 2012ء کے دوران میانمار کی ریاست مغربی راکھائن میں ہوئے واقعہ کے بعد سب سے زیادہ ہلاکت خیز بن جائے گا، جب بدھسٹ نسل پرستوں نے روہنگیا مسلم اقلیت پر حملے کیے تھے۔
فورٹی فائی رائٹس نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ”ہلاکتوں کی اصل تعداد اس سے زیادہ ہوسکتی ہے، لیکن علاقے تک رسائی پر حکومت کی پابندیوں کے باعث حاصل ہونے والی معلومات محدود ہیں۔“
راکھائن ریاست کے سرکاری ترجمان ون مائینگ نے جمعرات کے روز رائٹرز کو بتایا کہ انہوں نے اس علاقے کا دورہ کیا تھا اور بڑے پیمانے پر قتلِ عام کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔ سرکاری میڈیا نے بھی ایسے کسی قتلِ عام کے واقعے کی تردید کی ہے۔
حالیہ حملے کی اطلاعات مانگڈا کے قصبے میں 13 جنوری کو پولیس اور روہنگیا دیہاتیوں کے درمیان جھڑپ کے بعد پھیلنا شروع ہوئیں، جو ایک دور دراز علاقہ ہے جہاں صحافیوں کے لیے محدود جبکہ انسانی حقوق کی تنظیموں کی رسائی پر سختی سے کنٹرول کیا جاتا ہے۔
چند دن پہلے ریاستی اور مرکزی حکومت کے ترجمان نے کہا تھا کہ پولیس پر حملے کیے گئے تھے۔ لیکن اقوامِ متحدہ اور امریکا و برطانوی سفارتخانوں کی جانب سے تفتیش کے مطالبے پر انتقامی ہلاکتوں کی تردید کی ہے۔
اقوامِ متحدہ کے ہیومیٹیرین آپریشن کے سربراہ والیری ایموس نے مبینہ تشدد پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ شہریوں کے تحفظ کے لیے تمام ضروری اقدامات اُٹھائے اور ہیومیٹیرین کے اسٹاف کو اس علاقے میں جانے کی اجازت دے۔
انہوں نے کہا کہ ”میں اس کے علاوہ یہ بھی کہنا چاہوں گی کہ حکومت ان واقعات کے حوالے سے فوری طور پر غیرجانبدارانہ تفتیش شروع کرےاور جن لوگوں کو اس واقعے کے سلسلے میں گرفتار کیا گیا ہے اور جو زیرِ حراست ہیں ان کے انسانی حقوق کا احترام کرے۔“
اگراس واقعہ کی تصدیق ہوجاتی ہے تو جون 2012ء کے دوران پورے میانمار مذہبی تصادم میں ہلاک ہونے والے لوگوں کی تعداد کم از کم 277 تک جاپہنچے گی۔ یاد رہے کہ میانمار میں ایک لاکھ چالیس ہزار سے زیادہ کی تعداد میں لوگ بے گھر ہوچکے ہیں۔
روہنگیا نسل کے ہزاروں افراد2012ء سے شروع ہونے والے فسادات کے بعد میانمار سے نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوئے ہیں، ان لوگوں کی بڑی تعداد کے غیرقانونی طور پر ترک وطن پڑوسی ملکوں کے لیے پریشانی کا سبب بن رہا ہے۔
مینانمار کے ایک سرکاری اخبار ”نیو لائٹ آف میانمار“ نے جمعرات کی اشاعت میں کہا ہے کہ راکھائن کے ریاستی حکام کو خواتین اور بچوں کی ہلاکتوں کے کوئی ثبوت نہیں ملے ہیں، اور اس نے راکھائن کے وزیر اعلٰی ہلا ماؤنگ ٹن کے الفاظ کا حوالہ دیا جنہوں نے غیر ملکی میڈیا پر جھوٹی خبروں کی رپورٹنگ کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔
اخبار کا کہنا تھا کہ ایک پولیس سارجنٹ کا خون آلود یونیفارم اس مقام کے نزدیک سے برآمد ہوا ہے، جہاں روہنگیا برادری کے تقریباً ایک سو افراد نے ڈنڈوں اور چاقوؤں سے پولیس کی ایک گشتی پارٹی پر حملہ کیا تھا۔
میانمار میں فوجی حکمرانی کے خاتمے اور جمہوری اصلاحات کی لہر کے باوجود بہت سے علاقوں میں محدود رسائی کی وجہ سے فوری طور پر اطلاعات کے حصول میں مشکلات پیش آتی ہیں۔
راکھائن کی ریاست میں تقریباً دس لاکھ روہنگیا مسلمان بستے ہیں، جن میں سے زیادہ تر بے وطن ہیں، ان کے بارے میں اقوامِ متحدہ کا کہنا ہے کہ یہ ظلم و ستم، امتیازی سلوک اور استحصال کی مختلف شکلوں کا شکار ہیں۔ ان میں جبری مشقت، جائیداد کو ضبط کرنا، سفری پابندیاں اور ملازمتوں، تعلیم اور صحت کی دیکھ بھال کی سہولتوں تک محدود رسائی شامل ہیں۔
روہنگیا برادری کے ایک ذرائع نے رائٹرز کو بتایا کہ روہنگیا کے آٹھ افراد پر مشتمل ایک گروپ کی 13 جنوری کی رات کو پولیس کے ساتھ جھڑپ ہوئی تھی۔ جس میں ایک پولیس آفیسر کے ساتھ دو یا تین روہنگیا ہلاک ہوگئے تھے، جبکہ باقی افراد قریبی گاؤں میں فرار ہوگئے ۔
ایک ذرائع جس نے سیکیورٹی کی وجوہات کی بنا پر اپنی شناخت ظاہر نہیں کی، نے بتایا کہ بعد میں سیکیورٹی فورسز نے اس گاؤں کا محاصرہ کرلیااور کچھ راکھائن بدھ شہریوں کے ساتھ اس پر حملہ کردیا، جس میں ستر روہنگیا مارے گئے۔
انہوں نے کہا کہ یہ گاؤں اب ویران ہوگیا ہے۔ بہت سے لوگوں کو گرفتار کرلیا گیا تھا، اور کچھ لاپتہ ہیں۔ کچھ لوگ مختلف مقامات میں خوف کی وجہ سے روپوش ہوگئے ہیں۔
سرکاری اخبار نیو لائٹ آف میانمار کا کہنا ہے کہ سولہ مشتبہ افراد سے پولیس پر حملے کے سلسلے میں تفتیش کی جارہی ہے۔
فورٹی فائی رائٹس نامی انسانی حقوق کی تنظیم کا کہنا ہے کہ حکومت نے روہنگیا مسلمانوں کو بڑے پیمانے پر گرفتار کیا تھا۔
اس تنظیم کے گروپس ایگزیکٹیو ڈائریکٹر میتھیو اسمتھ نے کہا کہ ”اس علاقے میں ان ظالمانہ گرفتاریوں سے انسانی حقوق کی وسیع پیمانے پر خلاف ورزی ہوئی ہے۔ اور اس کا فوری طور پر خاتمہ کیا جانا چاہئیے۔“
میانمار کی حکومت نے سولہ جنوری کو کہا تھا کہ جنوبی ایشیا کی علاقائی تنظیم ایسوسی ایشن آف ساؤتھ ایشین نیشنز (ایسیان) کے اجلاس میں اگر دیگر ممالک نے روہنگیا مسلمانوں کا معاملہ اُٹھایا تو وہ اس پر کوئی بات نہیں کرے گی۔
انسانی حقوق کی تنظیم فورٹی فائی رائٹس کا کہنا ہے کہ گزشتہ ہفتے کے تشدد کا آغاز نو جنوری سے شروع ہوا جب روہنگیا کے ایک گروپ کا ماؤنگڈا سے گزر ہوا، جہاں بدھسٹ راکھائن کی اکثریت رہائش پذیر ہے، انہوں نے اس گروپ پر حملہ کردیا۔ چودہ جنوری کو روہنگیا مسلمانوں کی راکھائن شہریوں اور پولیس کے ساتھ جھڑپ ہوئی، پولیس کے مطابق انہوں نے ایک پولیس آفیسر کو مبینہ طور پر قتل کیا تھا۔
فورٹی فائی رائٹس کا کہنا ہے کہ سیکورٹی فورسز اور راکھائن شہری چودہ جنوری کی صبح سویرے واپس پلٹے اور دیہاتیوں پر حملہ کردیا، ان دیہاتیوں میں زیادہ تر خواتین اور بچے شامل تھے، جو فرار ہونے میں کامیاب نہیں ہوسکے تھے۔