سانحہ مستونگ کے خلاف ملک بھر میں احتجاجی دھرنے
کوئٹہ: پاکستان کے جنوب مغربی صوبے بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں کل رات بھر خون کو منجمد کردینے والے منفی سات سینٹی گریڈ کے درجہ حرارت کے باوجود دہشت گردی کی نذر ہونے والوں کے لواحقین اپنے عزیزوں کی لاشوں کے ساتھ دھرنا دیے بیٹھے رہے۔
ڈان نیوز ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق مستونگ میں زائرین کی بس پر حملے سے زخمی ہونے والوں میں سے ایک اور زخمی نے علاج کے دوران دم توڑدیا۔ جس کے بعد اس سانحے میں ہلاکتوں تعداد اب تیس ہوگئی ہے۔
کل بروز بدھ بائیس جنوری کو وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹرعبدالمالک بلوچ اور سانحہ مستونگ کے خلاف علمدار چوک پر دھرنا دینے والے مظاہرین کے درمیان مذاکرات کا کوئی نتیجہ نہیں نکل سکا تھا۔ ان مظاہرین کا اب بھی یہی کہنا ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی تک وہ اپنا احتجاج ختم نہیں کریں گے۔
سانحہ مستونگ کے خلاف ملک کے دیگر شہروں کی طرح وفاقی درارلحکومت اسلام آباد میں فیض آباد کے مقام پر احتجاجی دھرنا جاری ہے، جس میں بڑی تعداد میں بچے خواتین اور بزرگ شامل ہیں۔
مجلس وحدت المسلمین کے کارکنوں نے فیض آباد انٹر چینج کو بلاک کردیا ہے، جس کے باعث راولپنڈی اور اسلام آباد آنے والی ٹریفک معطل ہوگئی ہے۔ دھرنے کی قیادت مجلس وحدت المسلمین کے رہنما علامہ اصغر عسکری کررہے ہیں۔ جن کا کہنا ہے وزیرداخلہ چوہدری نثار کو جائے حادثہ پر خود آنا چاہئے تھا۔
ڈان نیوز کی رپورٹ کے مطابق احتجاجی دھرنے کے شرکاء سے خطاب میں مجلس وحدت المسلمین کے مرکزی رہنما علامہ امین شہیدی کا کہنا تھا بلوچستان میں بعض مدرسوں اور مسجدوں کی شکل میں دہشتگردی کے ٹھکانے موجود ہیں۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ بلوچستان میں دہشتگردوں کے خلاف آپریشن کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ طالبان نے آج تک کسی امریکی کو نہیں مارا، بے گناہوں کو قتل کرنے والے مسلمان کیسے ہوسکتے ہیں؟ ان کا کہنا تھا کہ انہیں کوئی طاقت دھرنوں سے نہیں روک سکتی اور موسمی تغیرات ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔
دوسری جانب مستونگ سانحے کے متاثرین سے اظہار یک جہتی کے لیے سول سوسائٹی نے نیشنل پریس کلب کے سامنے شمعیں روشن کیں۔ سول سوسائٹی کے نمائندوں کا کہنا تھا کہ ہزارہ برادری کو مسلسل دہشت گردی کانشانہ بنایا جارہا ہے، حکومت کالعدم لشکر جھنگوی کے خلاف ٹارگٹڈ آپریشن شروع کرے ۔
اس وقت پاکستان کے ہر بڑے شہر میں سانحہ مستونگ کے خلاف احتجاجی دھرنے جاری ہیں۔ کراچی کے مختلف علاقوں میں بھی احتجاجی مظاہرین دھرنوں پر بیٹھے ہیں۔ جس سے شہر میں ٹریفک کا نظام درہم برہم ہوگیا ہے، کل شام کو پورے شہر میں بُری طرح ٹریفک جام تھا۔ شاہراہ پاکستان پرانچولی کے سامنے دھرنا دے کرسپرہائی وے جانے والی سڑک بند کردی گئی ہے۔ ملیر پندرہ پردھرنے کی وجہ سے لانڈھی، پاکستان اسٹیل اور ٹھٹھہ کو جانے والی نیشنل ہائی وے بند ہے جبکہ نمائش چورنگی پر بھی دھرنا جاری ہے۔
مستونگ کے شہدا کے سوگ اور لواحقین سے اظہار یکجہتی کے لیے دیے گئے دھرنوں کے باعث کراچی شہر میں معمولاتِ زندگی جُزوی طور پر معطل ہیں۔ کئی علاقوں میں کاروبار بند ہے، پبلک ٹرانسپورٹ کم ہونے کے باعث لوگوں کو سخت مشکلات کا سامنا ہے۔ جس مقام پر احتجاجی مظاہرین دھرنے پر بیٹھے ہیں، ان کے اطراف علاقوں میں سناٹا جبکہ متبادل راستوں پر ٹریفک شدید جام دیکھنے میں آرہا ہے۔
مستونگ میں دہشت گردی کے خلاف لاہور میں گورنر ہاؤس کے باہرمجلس وحدت المسلمین کے کارکن احتجاجی دھرنے پر بیٹھے ہیں، مظاہرین کا کہنا ہے کہ مطالبات کی منظوری تک یہ دھرنا جاری رہے گا۔ دھرنے میں شامل سینکڑوں مظاہرین میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔ ان کامطالبہ ہے کہ مستونگ میں زائرین کی بس پر حملے کے ملزمان کو فوری طور پر گرفتار کر کے کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔ دھرنے کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے مطالبہ کیا کہ مستونگ میں دہشت گردوں کے خلاف فوجی آپریشن کیا جائے۔ دھرنے کے باعث مال روڈ کی ایک سائیڈ کو ٹریفک کے لیے بند کر کے دوسری طرف ٹریفک کو رواں رکھا جا رہا ہے، جبکہ سکیورٹی کے لیے پولیس کی بھاری نفری بھی تعینات کی گئی ہے۔
آج بروز جمعرات کی صبح ڈان نیوز کی رپورٹ کے مطابق لاہور میں گورنر ہاؤس کے سامنے سانحہ مستونگ کے خلاف دھرنے کے شرکاء سے انتظامیہ کے مذاکرات کامیاب ہوگئے، جس بعد ون وے ٹریفک کے لیے کھول دیا گیا۔ تاہم دھرنے کا اختتام کوئٹہ میں دیے گئے دھرنے سے مشروط کردیا گیاہے۔
حیدرآباد میں بائی پاس پر دھرنا جاری ہے۔ کل مظاہرین نے ٹائر جلاکر ٹریفک معطل کردی تھی۔
ملتان میں مجلس وحدت مسلمین نے سانحہ مستونگ کے خلاف احتجاجی ریلی نکالی۔
جیکب آباد میں مظاہرین نے قومی شاہراہ پر دھرنا دیا اور دہشت گردی کی روک تھام کا مطالبہ کیا۔
کمبائنڈ ملٹری ہسپتال (سی ایم ایچ) کے ایک اہلکار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کے ساتھ بتایا کہ چھبیس لاشوں کو شناخت کرلیا گیا ہے، جبکہ ایک لاش کی شناخت ہونا ابھی باقی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پینتس زخمی کوئٹہ سی ایم ایچ میں زیرعلاج ہیں۔ ان کے مطابق سات زخمیوں کی حالت نازک ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ منگل کے روز شیعہ زائرین کو ایران سے کوئٹہ جانے والی بس پر کیے گئے بم حملے میں زخمی ہونے والوں میں سے تین بدھ کو جانبر نہ ہوسکے۔ اس طرح ہلاک ہونے والوں کی تعداد چھبیس سے بڑھ کر انتیس ہوگئی ہے۔
ایک نجی ٹی وی چینل سے بات کرتے ہوئے وزیراعلٰی بلوچستان نے وفاقی حکومت سے شیعہ زائرین کے لیے کراچی سے ایرانی بندرگاہ چا بہار تک فیری سروس چلانے کا مطالبہ کیا ہے۔ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہا کہ فیری سروس محفوظ بھی ہوگی اور سستی بھی رہے گی۔ انہوں نے کہا کہ ایران سے پاکستان واپس آنے والے زائرین کی بسوں کو مسلسل خطرات لاحق رہتے ہیں، اور اس مہینے میں ان بسوں پر دو مرتبہ حملے کیے گئے ہیں۔
سید علی شاہ (بائیس جنوری 2014ء)۔
کوئٹہ: جمادینے والے درجہ حرارت کے باوجود ہزارہ برادری بلوچستان میں ضلع مستونگ میں گزشتہ روز پیش آنے والے حملے کے خلاف کوئٹہ میں احتجاج کررہے ہیں۔
کالعدم تنظیم لشکر جھنگوی کے بس پر اس حملے کے نتیجے میں ہلاکتوں کی تعداد 29 ہوگئی ہے۔
یاد رہے کہ گزشتہ روز کالعدم تنظیم لشکر جھنگوی کی جانب سے بس پر حملے کے نتیجے میں تازہ ترین اطلاعات کے مطابق 29 افراد ہلاک ہوچکے ہیں جبکہ واقعے میں درجنوں افراد زخمی بھی ہوئے۔
گزشتہ سال بھی 10 جنوری سے 13 جنوری کے درمیان ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے ہزاروں افراد نے دو بم دھماکوں میں 100 سے زائد افراد کی ہلاکت کے بعد احتجاجی دھرنا دیا تھا۔
اس کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت نے بلوچستان کے اس وقت کے وزیراعلیٰ نواب اسلم رئیسانی کو اپنے منصب سے ہٹاتے ہوئے صوبے میں گورنر راج نافذ کردیا تھا۔
بدھ کے روز وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے علمدار روڈ کا دورہ کیا اور مستونگ میں پیش آنے والے واقعے پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا جبکہ انہوں نے ہزارہ برادری کے دھرنے میں شامل اراکین سے دھرنا ختم کرنے کی تلقین بھی کی۔
دوسری جانب میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعلیٰ نے صوبے میں غیر ملکی عسکریت پسندوں کی موجودگی کا عندیہ بھی دیا۔
انہوں نے کہا 'مستونگ میں ازبک عسکریت پسند کا مارا جانا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ غیر ملکی شدت پسند بلوچستان پہنچ چکے ہیں۔'
انہوں نے کہا کہ ان کی حکومت دہشت گردی کو ختم کرنے کے لیے پر عزم ہے۔
ادھر ہسپتال ذرائع کا کہنا ہے کہ بس حملے کے نتیجے میں ہلاکتوں کی تعداد 29 ہوگئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ 26 لاشوں کو شناخت کرلیا گیا ہے جبکہ ایک کی شناخت نہیں ہوسکی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ 35 دیگر افراد کا ہسپتال میں علاج جاری ہے جن میں سے سات کی حالت نازک ہے۔
دوسری جانب کراچی اور اسلام آباد سمیت ملک بھر کے دیگر متعدد بڑے شہروں میں احتجاجی دھرنے جاری ہیں۔
سانحہ مستونگ کے خلاف ملک کے دیگر شہروں کی طرح وفاقی درارحکومت اسلام آباد میں فیض آباد کے مقام پر احتجاجی دھرنا جاری ہے۔
دھرنے سے خطاب میں مجلس وحدت المسلمین کے مرکزی رہنما علامہ امین شہیدی کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں مدرسوں اور مسجدوں کی شکل میں دہشتگردی کے ٹھکانے موجود ہیں۔
انہوں نے خبردار کیا کہ بلوچستان میں دہشتگردوں کے خلاف آپریشن کیا جائے، مطالبات منظور نہ ہوئے تو پورے ملک کو مفلوج کردیا جائے گا۔
اس کے علاوہ کراچی اور لاہور سمیت دیگر شہروں میں بھی احتجاجی دھرنے جاری ہیں۔
تبصرے (2) بند ہیں