مواقع سب کے لئے
پاکستان کے تعلیمی شعبہ میں ایک بہت بڑی خرابی یہ ہے کہ شاذ و نادر ہی ایسا ہوتا ہے کہ عام بحث مباحثوں میں اس گہری ناانصافی کو موضوع بحث بنایا جائے جو بہترین تعلیمی مواقع حاصل کرنے میں غیر مراعات یافتہ طبقات کے بچوں کو درپیش ہے- یہ کوئی وقتی مسئلہ نہیں بلکہ ہمیشہ سے چلا آرہا ہے-
درمیانے طبقے کے والدین کے بچوں کے لیئے کسی سرکاری شعبہ کی میڈیکل یونیورسٹی میں داخلہ حاصل کرنا ایک خوفناک مرحلہ ہوتا ہے، کسی اعلیٰ درجہ کے پرائیویٹ انسٹیٹیوٹ میں داخلہ لینا تو دور کی بات رہی جن کی فیسیں انتہائی ظالمانہ ہوتی ہیں- بلکہ اب تو سرکاری ادارے بھی اتنی بھاری فیسیں لیتے ہیں کہ عوام کی اکثریت انھیں ادا نہیں کرسکتی- کیا یہ بچے جنہیں معیاری تعلیم کی سہولتیں حاصل نہیں اس بلند سطح پر پہنچ سکتے ہیں جو اچھی ملازمت کی وجہ سے انہیں حاصل ہوسکتی ہے؟
اس تعلق سے یہ ایک تاریخ ساز موقع تھا جب سندھ انسٹیٹیوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشنز -- ایس آئی ایم ایس (سندھ انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز) میں پاکستان کا پہلا فزیشین اسسٹنٹس کا کانووکیشن منعقد ہوا- گزشتہ ہفتہ، 252 نوجوان گریجویٹس نے میڈیکل ٹکنولوجی کے مختلف مضامین میں چار سالہ بی-ایس ڈگری حاصل کی (ان میں سے 58 فی صد عورتیں تھیں)- ان میں آپریشن تھیٹر سائنس سے لیکر نیوکلیر میڈیسن اور ریڈیو تھیریپی کے مضامین شامل تھے- 34 نرسوں نے (جن میں پانچ مرد شامل تھے) ڈپلوما حاصل کئے-
ایس آئی ایم ایس دیگر میڈیکل کالجوں اور یونیورسٹیوں سے کس طرح مختلف ہے جنہوں نے اس کی مثال پر عمل نہیں کیا اور فزیشین اسسٹنٹس کو تربیت دینے کا کام شروع نہیں کیا؟ ایس آئی ایم ایس نے یہ ثابت کردیا ہے کہ ٹکنیکل تعلیم غیر مراعات یافتہ طبقہ کو فراہم کی جاسکتی ہے- لاکھوں روپے کی فیس لینے والے دیگر ادارے اس ظالمانہ روش پر چل رہے جو پچھلے چند برسوں سے دیکھنے میں آرہی ہے-
ایس آئی ایم ایس کے قیام کی وجہ ایس آئی یو ٹی کا فلسفہ ہے- اس کا مقصد تجارتی مفادات کے تحت مارکیٹ کی طلب کے تابع نہیں ہے-
ایس آئی یو ٹی کے ڈائریکٹر ڈاکٹر ادیب رضوی کا محکم یقین ہے کہ صحت کی نگہداشت ہر فرد کا بنیادی حق ہے اور کسی کو محظ اس لئے نہیں مرجانا چاہیئے کہ وہ علاج معالجہ کے اخراجات برداشت نہیں کر سکتا-
اس اصول پر عمل کرتے ہوئے ایس آئی یو ٹی میں سب کا علاج مفت کیا جاتا ہے، ان کے وقار کی حفاظت کی جاتی ہے اور یہ سلسلہ گزشتہ چالیس برسوں سے جاری ہے- ایک ایسی دنیا میں جس کا مطمح نظر منافع خوری اور تجارت ہے ایس آئی یو ٹی نے ایک ایسے ماڈل کی داغ بیل ڈالی ہے اور ایک ایسے فلسفے کو سر بلند رکھا ہے جسے ڈاکٹر رضوی یقینی طور پر قابل عمل سمجھتے ہیں-
ایس آئی یو ٹی، جو پبلک سیکٹر سے تعلق رکھتا ہے تین طرفہ اشتراک سے جس میں کمیونٹی اور ڈاکٹرز حصہ لیتے ہیں، کام کرتا ہے- گورنمنٹ کی فنڈنگ کے ساتھ ساتھ کمیونٹی کے لوگ فراخدلی سے چندہ دیتے ہیں جبکہ ڈاکٹرز مریضوں کو مفت بہترین طبی خدمات فراہم کرتے ہیں --- جو چوبیس گھنٹے فراہم کی جاتی ہیں- چونکہ انسٹیٹیوٹ جدید ترین میڈیکل ٹکنولوجی استعمال کرتا ہے اس لیئے ضرورت کے مطابق اس کے دائرے کو پھیلایا جا رہا ہے- مریضوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کی وجہ سے اس کے کام کے بوجھ میں بھی اضافہ ہورہا ہے-
ایس آئی ایم ایس کو 2009ء میں ڈگری دینے والے ادارے کی حیثیت سے قائم کیا گیا تھا جبکہ تربیت یافتہ افرادی قوت کی شدید قلت محسوس کی جارہی تھی- دی زین العابدین اسکول آف میڈیکل ٹکنولوجی 2005ء میں قائم کیا جاچکا تھا جبکہ اسکول آف نرسنگ 2006ء میں قائم کیا گیا- چونکہ ایس آئی یو ٹی تعلیم کو بھی بنیادی حق سمجھتا ہے (ٹکنیکل تعلیم کی رسائی سمیت) اس لئے تعلیم کے اس پھیلاؤ کو مناسب کہا جاسکتا ہے-
جیسا کہ ایس آئی یو ٹی کا طرز فکر ہے تعلیم کے فروغ کے لئے اسکی مسلسل جدوجہد جاری ہے- ان گریجویٹس سے بات چیت کے دوران جنہیں گزشتہ بدھ کو بی ایس کی چار سالہ ڈگری دی گئی تھی مجھے ان تبدیلیوں میں جھانکنے کا موقع ملا جو ایس آئی ایم ایس نے ان کی زندگیوں میں پیدا کی تھی-
عبدالقادر، آپریشن تھیٹر سائنس کے گریجویٹ ہیں اور اب ایس آئی یو ٹی میں کام کرتے ہیں، پہلے ایک گورنمنٹ اسکول میں اور اس کے بعد ایک سرکاری کالج میں پڑھتے تھے- ٹکنیکل تعلیمی اداروں میں داخلے کے سخت مقابلے کے امتحانوں اور بھاری فیسوں کی وجہ سے اس بات کے کم ہی امکانات تھے کہ انہیں اپنی صلاحیتوں کو جلا دینے کا موقع ملے گا-
ایس آئی ایم ایس میں انہوں نے داخلے کا امتحان سہولت سے پاس کرلیا اور اب اس چار سالہ کورس نے ان کے سامنے ایک کامیاب کیرئیر کی راہ کھول دی ہے- انھوں نے بتایا کہ ایس آئی ایم ایس کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہاں تھیوری کے لیکچر کے ساتھ ساتھ کلینک میں عملی تعلیم بھی دی جاتی ہے-
ارم آرا، سیٹیزن فاونڈیشن اسکول نارتھ کراچی میں اور اس کے بعد ایک گورنمنٹ کالج میں پڑھتی تھیں- انہوں نے ایس آئی ایم ایس سے کریٹیکل کیئر سائنسز میں بی ایس کی ڈگری لی- وہ ڈاکٹر بننا چاہتی تھیں لیکن انہیں ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز میں داخلہ نہیں مل سکا- انہیں اپنی ناکامی پر ذرہ برابر بھی افسوس نہیں- ایس آئی ایم ایس میں جہاں انہوں نے داخلہ کا اامتحان آسانی پاس کرلیا، انھیں بہت فائدہ ہوا- ایک تو وہاں کے ماحول نے ان میں عزت نفس کا احساس جگایا اور دوسرے وہاں کی بہترین تعلیم ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ کلینیکل پہلو پر زور دیا جاتا ہے-
یہ ہے تعلیم میں مساوات کا مطلب- اس کا مطلب یہی نہیں ہے کہ سب کے لئے تعلیم کے دروازے کھول دئے جائیں بلکہ سب کے لئے اعلیٰ معیاری تعلیم کے مواقع فراہم کیئے جائیں- حقیقت میں اس پر پرائمری جماعتوں سے ہی عمل کیا جانا چاہئے-
صرف حکومت کے باضمیر افسر ہی یہ کام انجام دے سکتے ہیں- عموماً لوگوں کو یہ یاد نہیں کہ ایس آئی یو ٹی کی ابتداء سول ہسپتال کے آٹھ بستروں کے وارڈ کی حیثیت سے ہوئی تھی جو آج ایک بیمثال ادارہ بن چکا ہے- یہ این جی او نہیں ہے کیونکہ ڈاکٹر رضوی نے سول ہسپتال کراچی کو ابتدائی قدم کے طور پر استعمال نہیں کیا تھا تاکہ اسے کسی پراِئیویٹ خیراتی ہسپتال میں تبدیل کردیا جائے جیسا کہ اور لوگ کر چکے ہیں-
ترجمہ: سیدہ صالحہ