ہار کے حقدار
اور وہی ہوا جس کا خدشہ تھا کیونکہ ہر بار قسمت کی یاوری نہیں ہوتی۔
دوسرے ٹیسٹ میچ میں پاکستانی ٹیم نے جس انداز میں ہتھیار ڈالے اور شکست کو گلے کو گلے لگایا، یہ ٹیم یقیناً اسی کی حقدار تھی لیکن سری لنکا نے جس شاندار کھیل کا مظاہرہ کیا، اس پر ان کی جتنی بھی تعریف کی جائے وہ کم ہے۔
اگر شروع سے بات کی جائے تو سب سے بڑا معمہ فاسٹ باؤلرز کے لیے موزوں پچ ہے جہاں بہترین اسپنرز سے لیس اور ماضی میں انہی کے بل بوتے پر سیریز جیتنے والی ٹیم نے ہوم سیریز کا ایڈوانٹیج گنواتے ہوئے اسپن وکٹیں نہ بنوائیں۔
ہم پہلے دن ہی یہ میچ ہار گئے تھے جہاں ٹاس ہارنے کے بعد 165 رنز پر بوریا بستر لپیٹنے والی قومی ٹیم نے کسی بھی موقع پر ایک ٹیم کی مانند میچ میں واپسی کی کوشش نہ کی۔
سعید اجمل، عبدالرحمان اور محمد حفیظ پر مشتمل اسپن اٹیک نے متحدہ عرب امارات کی سرزمین پر ہونے والے کئی ٹیسٹ میچز میں حریفوں کے لیے رنز کا حصول مشکل بناتے ہوئے ٹیم کو فتح سے ہمکنار کرایا لیکن اس کے باوجود نجانے کس بنیاد پر دونوں میچز میں ایسی پچز بنائی گئیں جس پر سعید اجمل جیسا اعلیٰ معیار کا اسپنر بھی کچھ کرنے میں ناکام نظر آیا۔
یہ بات اس لیے بھی خاصی عجیب معلوم ہوتی ہے کیونکہ ان دنوں پاکستانی ٹیم اپنے دونوں بہترین فاسٹ باؤلرز محمدعرفان اور عمر گل سے محروم ہے اور اس وقت جنید خان ہی واحد ایسے باؤلر ہیں جو حریف کے لیے بلاشبہ ترنوالہ ثابت نہ ہوئے۔

غلطیوں کی اس فہرست میں دوسرا نمبر ٹیم سلیکشن ہے جہاں پہلے ٹیسٹ میں ناکامی کے باوجود محمد طلحہ کو دوسرے میچ میں نہ کھلایا گیا اور نتیجتاً گزشتہ میچ کی طرح اس بار بھی راحت علی سری لنکن بلے بازوں کے لیے مشکلات کھڑی کرنے میں ناکام رہے جبکہ پہلے ٹیسٹ میں ایک آسان مرحلے پر اسکور کرنے والے احمد شہزاد اور حفیظ کو کھلانے کا فیصلہ بھی کسی حد تک درست نہ تھا۔
دبئی ٹیسٹ کی بات کی جائے تو ہم پہلے دن ہی یہ میچ ہار گئے تھے جہاں ٹاس ہارنے کے بعد 165 رنز پر بوریا بستر لپیٹنے والی قومی ٹیم نے کسی بھی موقع پر ایک ٹیم کی مانند میچ میں واپسی کی کوشش نہ کی۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ کچھ ماہرین نے ٹاس ہارنے کو میچ کے نیتجے کا اہم پہلو قرار دیا ہے لیکن غور طلب امر یہ ہے کہ قومی ٹیم نے بلے بازوں کے لیے سب سے مشکل اور فاسٹ باؤلرز کے لیے موزوں تصور کیے جانے والے میچ کے پہلے سیشن میں صرف ایک وکٹ کے نقصان پر 57 رنز بنائے تھے جس سے ان کا یہ دعویٰ کچھ غلط ثابت ہوتا نظر آتا ہے۔
پھر دوسرے سیشن میں وکٹوں گرنے کا وہ سلسلہ شروع ہوا کہ 106 رنز پر دو وکٹیں گنوانے والی ٹیم 165 رنز پر آؤٹ ہر کر ڈریسنگ روم میں بیٹھی چائے پی رہی تھی جہاں پوری اننگ کا جائزہ لیا جائے تو کم و بیش تمام ہی کھلاڑی اپنی غلطیوں سے وکٹیں گنوائیں۔
سری لنکا نے بلے بازی شروع کی تو ایسا لگا کہ یہ کسی اور ہی پچ پر بیٹنگ کر رہے ہیں۔
پھر مصباح الحق کے وہی دفاعی انداز قیادت اور قومی ٹیم کی کیچ ڈراپ کرنے کی پرانی عادت کی بدولت سیریز سے قبل کمزور قرار دی جانے والی سری لنکن ٹیم نے ایک بار پھر فیورٹ ٹیم کے ہوش اڑاتے ہوئے 223 رنز کی فیصلہ کن برتری حاصل کی۔
سری لنکن اننگ میں کشال سلوا اور تجربہ کار جے وردنے کی تعریف نہ کرنا یقیناً زیادتی ہو گی خصوصاً سلوا نے جس انداز میں پاکستانی باؤلرز کو نئی گیند کا فائدہ اٹھانے سے محروم رکھا، وہی میچ کا ٹرننگ پوائنٹ تھا جبکہ جےوردنے کی پیشہ ورانہ مہارت سے بھرپور باری ان کے تجربے کی عکاس اور پاکستانی بیٹسمینوں کے لیے سبق تھی۔
اس بڑی برتری میں پاکستانی فیلڈرز اور وکٹ کیپر کی عنایت بھی کار فرما تھی جنہوں نے کم از پانچ کیچز ڈراپ کیے۔
اس میچ میں پاکستانی باؤلنگ لائن کا ایک انتہائی خطرناک پہلو بھی آشکار ہوا جہاں اجمل کی جانب سے پرفارم نہ کرنے کی صورت میں باؤلنگ بے دانت کی شیر دکھائی دی، اس پر بلاول بھٹی کے ان فٹ ہونے سے آوے کا آوا ہی بگڑ گیا۔
ایسا محسوس ہوتا تھا کہ جیسے یہ بلے باز اوسط رفتار کے سری لنکن باؤلرز کی جگہ ڈیل اسٹین، مچل جانسن یا مورنے مورکل کا سامنا کر رہے ہوں
دوسری باری کا آغاز پہلی اننگ سے زیادہ بھیانک تھا جہاں بھاری برتری سے خوفزدہ ابتدائی بلے بازوں نے پویلین پہنچنے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کامیاب کوشش کی۔
اس دوران ایسا محسوس ہوتا تھا کہ جیسے یہ بلے باز اوسط رفتار کے سری لنکن باؤلرز کی جگہ ڈیل اسٹین، مچل جانسن یا مورنے مورکل کا سامنا کر رہے ہوں خصوصاً ایک روزہ سیریز میں رنز کے انبار لگانے والے حفیظ نے پھر وہی سابقہ غلطیاں دہرائیں۔
مصباح، یونس خان اور سرفراز احمد نے اچھی باریاں کھیل کر شکست کو ٹالنے کی کوشش کی لیکن حریف باؤلرز کی ڈسپلن سے بھرپور باؤلنگ کے سامنے وہ بھی بے بس رہے اور آخری دن سری لنکا نے نو وکٹ کی آسان فتح اپنے نام کی۔
بطور مجموعی اس ٹیسٹ میچ کو ٹیم مینجمنٹ کی ناکامی سے تعبیر کیا جائے تو ہرگز غلط نہ ہو گا جہاں غلط ٹیم سلیکشن، اہم مواقعوں پر مدافعانہ قیادت، ناقص بلے بازی اور باؤلنگ نے سری لنکا کو ایک غیر متوقع فتح دلانے میں اہم کردار ادا کیا۔
اب شارجہ میں ہونے والا اگلا ٹیسٹ مصباح الیون اور خصوصاً کوچ ڈیو واٹمور کے لیے بہت اہمیت کا حامل ہے جو اپنے پورے دور میں گرین شرٹس کو ایک بھی ٹیسٹ سیریز جتوانے میں ناکام رہے ہیں۔
مارو یا مرجاؤ کی اہمیت کے حامل تیسرے ٹیسٹ میچ میں فتح کے لیے ٹیم میں چند تبدیلیوں کو اشد ضرورت ہے جہاں نوجوان شان مسعود اور اظہر علی کو احمد شہزاد اور حفیظ پر فوقیت دی جانی چاہیے۔
اسی طرح باؤلنگ میں بھی بھٹی کے زخمی ہونے جانے کے باعث ایک تبدیلی یقینی ہے اور ان کی جگہ یقیناً طلحہ لیں گے جبکہ اگر گزشتہ میچ کی غلطیاں نہ دہراتے ہوئے اسپن پچ بنائی گئی تو راحت کی جگہ عبدالرحمان ٹیم میں شمولیت کے مستحق ٹھہریں گے۔
لیکن ٹیم میں تبدیلیاں ایک طرف، سب اہم چیز مصباح کا انداز قیادت اور فیلڈنگ ہے جہاں ایک طرف کپتان کو بے خوف ہو کر صرف جیت کے لیے میدان میں اترنا ہو گا تو دوسری جانب فیلڈرز کو بھی باؤلرز کی بھرپور مدد کرتے ہوئے ‘‘ہاف چانسز’’ کو کیچ میں تبدیل کرنا ہو گا۔
اگر ایسا نہ ہوا تو واٹمور تو شاید ناکام دور کوچنگ کا داغ لیے رخصت ہوں ہی، ساتھ ساتھ یہ ناکامی مصباح کے بطور ٹیسٹ کپتان کیریئر کے اختتام کا پیش خیمہ بھی ثابت ہو سکتی ہے۔













لائیو ٹی وی
تبصرے (1) بند ہیں