ملک میں امن فاٹا میں امن کے ساتھ منسلک، بلوچ
کوئٹہ: مرکزی دھارے کی سیاسی جماعتوں نے وفاقی حکومت سے پاکستان کے قبائلی پٹی میں امن کی بحالی اور قبائلیوں کو ان کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کرنے کے لئے با اختیار بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔
وزیر اعلٰی بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے جمعہ کو کوئٹہ میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دنیا کا امن اور خصوصاً ملکی سکون وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں (فاٹا) میں امن سے وابستہ ہے۔
اس موقع پر پاکستان مسلم لیگ قائد اعظم (مسلم لیگ ق) کے اجمل خان وزیر، قومی وطن پارٹی کے ہاشمم بابر، جماعت اسلامی کے پروفیسر ابراہیم، پیپلز پارٹی کے اخوندزادہ چٹان اور دیگر سیاسی رہنما موجود تھے۔
سیاسی جماعتوں نے گیارہ نقاط پر اتفاق کرتے ہوئے اسے قبائل علاقوں میں امن کے عمل کے لئے اہم قرار دیا۔
ڈاکٹر بلوچ نے جماعتوں کے مطالبات کی حمایت کی اور کہا کہ قبائلی علاقوں میں اصلاحات سے پائیدار امن کی راہ ہموار ہو گی۔
ق لیگ کے رہنما اجمل خان نے کہا کہ تمام گیارہ سیاسی جماعتوں نے فاٹا میں سیاسی عمل اور امن کی بحالی کے لئے مل کر جدوجہد کرنے کا اصولی فیصلہ کیا ہے۔
انہوں نے قبائلی علاقوں میں لوگوں کو درپیش مشکلات کے حوالے سے تفصیلی بات کی۔
وزیر نے کہا کہ یہاں تک کے اکیس ویں صدر میں بھی سینیٹرز اور ارکان قومی اسمبلی کو قانون سازی کرنے کی اجازت نہیں ہے۔
دہشت گردی سے متاثرہ قبائلیوں کی طرف سے درپیش مشکلات کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ" فاٹا کے عوام بے آواز ہیں۔"
سیاسی جماعتوں نے مطالبہ کیا ہے کہ عدلیہ کو ایگزیکٹو سے الگ کیا جانا چاہئے اور لوگوں کو پولیٹیکل ایجنٹ کے فیصلے کو چیلنج کرنےکی اجازت دی جائے۔
وزیر نے سوال کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ کیا آپ یقین کریں گے کہ فاٹا کے لوگ کسی پولیٹیکل ایجنٹ کے کئے گئے کسی فیصلے کیخلاف ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ تک نہیں جاسکتے؟
انہوں نے ملک کی سیاسی قوتوں کو فاٹا کے عوام کو با اختیار بنانے کے لئے فوری طور پر بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کی ضرورت پر زور دیا۔
پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار سیاسی جماعتوں کو شورش زدہ قبائلی علاقوں میں کام کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔
ملک کے دیگر حصوں کے مقابلے میں فاٹا میں غربت اور بے روزگاری کی شرح بہت زیادہ ہے۔
فاٹا سیاسی اصلاحات کمیٹی نے لوگوں کے مصائب کے خاتمے کے لیے قبائلی علاقوں کے لئے ایک ترقی کے پیکیج کا مطالبہ کیا ہے
وزیر نے کہا کہ عسکریت کی بنیادی وجوہات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔