بنگلہ دیش کے پُرتشدد انتخابات عوام کی رائے کا مظہر نہیں: امریکا
واشنگٹن: امریکا نے پیر کے روز بنگلہ دیش کے انتخابات پر اپنی مایوسی کا اظہار کیا جو خونریزی میں تبدیل ہوگئے تھے اور ایک نئے انتخاب کا مطالبہ کیا کہ جس میں عوام اپنی معتبر رائے آزادانہ طور پر دے سکیں۔
جنوبی ایشیا کے ملک میں انتخابی تشدد پر امریکی دفترخارجہ کی ترجمان میری ہاف نے کہا کہ ”بنگلہ دیش میں ہونے والے حالیہ انتخابات سے امریکا کو مایوسی ہوئی ہے۔“
انہوں نے کہا کہ ”نصف سے زیادہ نشستوں پر بلامقابلہ انتخاب ہوگیا ہے، یہ انتخابی نتائج کو دیکھ کر یہی کہا جاسکتا ہے کہ اس میں بنگلہ دیش کے عوام کی معتبر خواہشات کا اظہار نہیں ہوسکا ہے۔“
”ابھی یہ دیکھنا باقی ہے کہ نئی حکومت اقتدار کیسے سنبھالتی ہے، ہم بنگلہ دیشی حکومت اور حزبِ اختلاف کی جماعتوں کی اس بات پر حوصلہ افزائی کریں گے کہ وہ فوری طور پر مذاکرات کے ذریعے منصفانہ، آزادانہ، پُرامن اور قابلِ اعتبار انتخابات کے جلد ازجلد انعقاد کا راستہ تلاش کریں۔“
میری ہاف نے چاروں اطراف جاری رہنے والے تشدد کی مذمت کی جو سیاسی جمود کی نشاندہی کرتا ہے۔ انہوں نے وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کی حکمران جماعت عوامی لیگ پر زور دیا کہ وہ اپنی مرکزی حریف جماعت بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کے ساتھ رابطہ کرے۔
انہوں نے کہا کہ تشدد سیاسی عمل میں کسی طرح بھی قابل قبول نہیں ہوسکتا، ہم تمام فریقین سے کہیں گے کہ وہ تشدد کو آگے بڑھنے سے روکیں۔
بنگلہ دیش کی سیاسی قیادت اور وہ لوگ جو اس کی قیادت کرنا چاہتے ہیں، کے لیے لازم ہے کہ اپنے تمام اختیارات کو بروئے کار لاکر امن و امان کو بحال کریں، اور تشدد کو پھیلانے اور اس کی حمایت کرنے سے، خاص طور پر اقلیتی برادریوں کے خلاف تشدد، اشتعال انگیز بیانات اور دھمکیوں سے گریز کریں۔
اتوار کے روز ہونے والے انتخابات بنگلہ دیش کی آزادی کے بعد کی تاریخ کے سب سے زیادہ پُرتشدد انتخابات تھے، جس میں چھبیس افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
عوامی لیگ کو فتح کی جانب بڑھتے دیکھ کر بی این پی اور بیس دیگر حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے اس خوف سے کہ ان انتخابات میں دھاندلی کی جائے گی، اس میں حصہ لینے سے انکار کردیا تھا۔
شیخ حسینہ واجد نے پیر کے روز اپنی بلامقابلہ کامیابی کو جائز قرار دیا تھا، اور یہ واضح کردیا تھا کہ وہ بی این پی رہنما خالدہ ضیا کو اقتدار میں شراکت کی پیشکش نہیں کریں گی۔