لوکل باڈیز یا ایم کیو ایم -پی پی پی دنگل؟
سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد سندھ میں بلدیاتی انتخابات مہینوں تک ہوتے دکھائی نہیں دیتے۔ ہائی کورٹ نے بلدیاتی قانون میں ترامیم اور حالیہ کی گئی حد بندیوں کو مسترد کردیا ہے اور انتخابات تو 1979 کے قانون کے تحت کرانے کا حکم دیا گیا ہے لیکن یہ انتخابات مشرف دور کی 2001 کی حد بندیوں کے تحت کرانے کو کہا ہے۔ حکومت مشرف دور کی حدبندیوں پر انتخابات کرانے کے حق میں نہیں۔ اس ضمن میں صوبائی حکومت نے سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا اعلان بھی کردیا ہے۔ لہٰذا یہ معاملہ مہینوں تک عدالتوں میں لٹکا ہوا رہے گا۔
سندھ حکومت نے اسمبلی کے ذریعے فروری دو ہزار تیرہ میں 1979 کا بلدیاتی قانون بحال کیا تھا جس کے بعد اس میں کئی ترامیم کی گئیں۔ نئے اضلاع، تحصیلوں اور یونین کونسلوں کے قیام اور حدبندیوں میں ردوبدل کے ساتھ ساتھ انتخابات میں پینل سسٹم بھی لاگو کیا گیا۔ جس کی وجہ سے اور پیچیدیاں پیدا ہوگئیں اور یہ سسٹم عام آدمی کے لیے ناقابل فہم ہوکر رہ گیا۔
پچھلے چار ماہ سے سپریم کورٹ ملک بھر میں بلدیاتی انتخابات کرانے پر زور دیتی رہی۔ لیکن حکمران جماعتیں اور خود الیکشن کمیشن ان کے لیے تیار نہیں تھیں۔ حکومت میں شامل سیاسی جماعتوں کے لیے دو مسئلے تھے؛
پہلا یہ کہ وہ اختیارات میں جمہوریت کی ایک اور تہہ کو حصہ دینے کے لیے تیار نہیں تھیں۔
دوسرا یہ کہ اگر دوسرا مینڈیٹ عام انتخابات کے مینڈیٹ سے مختلف آیا تو ان کی سیاسی ساکھ متاثر ہونے کا احتمال تھا۔
لیکن سپریم کورٹ کے سابق چیف کے اصرار پر صوبائی حکومتوں کو انتخابات کی تاریخ دینی پڑی۔ یوں یہ انتخابات ایک حوالے سے صوبائی حکومتوں پر تھونپے جارہے تھے۔
سندھ میں آخر وقت تک نئے اضلاع، تحصیلوں، یونین کونسلوں کی تشکیل اور حلقہ بندیوں کی توڑ پھوڑ جاری رہی۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ حلقہ بندیاں عوام کی ضروریات یا مفادات کو سامنے رکھ کر کرنے کے بجائے مخصوص لوگوں، گروہوں یا خاندانوں کا اثر و رسوخ اور حکمرانی وسیع کرنے یا مضبوط کرنے کے لیے کی جارہی تھیں۔ اس طرح کی حدبندیوں پر سیاسی جماعتوں کے ساتھ ساتھ عام لوگوں کو بھی اعتراضات تھے۔
عام آدمی تو بیچارہ ہوتا ہے۔ اس کی نہ فیصلہ سازی کے اداروں تک رسائی ہے اور نہ ہی اعلیٰ عدالتوں سے رجوع کرنے کی سکت۔ بالآخر سیاسی جماعتیں متحدہ قومی موومنٹ، نواز لیگ، فنکشنل لیگ وغیرہ جن کے مفادات کو ٹھیس پہنچ رہی تھی، انہوں نے عدلیہ سے رجوع کر کے اس قانون میں ترامیم، پینل سسٹم اور حد بندیوں کو مسترد کروایا۔
اگرچہ عدلیہ نے زور دیا ہے کہ یہ انتخابات مقررہ تاریخ پر ہوں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ اپنے فیصلے میں ہی حکومت کو سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا راستہ دکھایا ہے۔ غالب امکان یہی ہے کہ انتخابات 18 جنوری کو نہیں ہو پائینگے۔ کاغذات نامزدگی نئی حلقہ بندیوں کی بنیاد پر داخل کئے گئے تھے۔ جو عدالتی فیصلے کے بعد غیر موثر ہوگئے ہیں۔ لہٰذا الیکشن کمیشن کونئے سرے سے شیڈیول دینا پڑے گا۔
اس فیصلے کا صرف اپوزیشن کو ہی نہیں بلکہ حکومت کو بھی فائدہ پہنچے گا۔ سندھ حکومت متعلقہ قانون میں ترامیم کرنے اور پسند کی حد بندیاں کرنے کے باجود جنوری میں انتخابات کرانے کے موڈ میں نہیں تھی۔ بلکہ مارچ کے آخر یا اپریل کے شروع میں کرانا چاہتی تھی۔ وہ اس آسرے میں بیٹھی تھی کہ کوئی بہانہ ملے۔ ہائی کورٹ کے فیصلے نے جیسے اسکی ضمانت کرادی۔ پیر کے روز لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے نے سندھ حکومت کی پوزیشن مضبوط کردی ہے کہ جنوری میں انتخابات نہ کرائے۔
سب سے بڑا فائدہ ایم کیو ایم کو پہنچے گا کہ انتخابات مشرف دور کی حد بندیوں کی بنیاد پر ہونگے۔ شہری علاقوں میں یہ حد بندیاں ایم کیو ایم کی مشاورت سے ہوئی تھیں۔ لہٰذا اب تین شہروں کے بلدیاتی اداروں میں ایم کیو ایم کی پوزیشن برقرار رہے گی۔ جبکہ کراچی میں مختلف پارٹیوں کے ساتھ مل کر میئر کا مشترکہ امیدوار لانے کی کوششیں بھی پانی کا بلبلہ ثابت ہوگئیں۔
وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کے حالیہ دورہ کراچی کو اگر ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے تناظر میں دیکھا جائے تو کچھ اور صورتحال بنتی نظر آتی ہے۔ شاید ایم کیو ایم، نواز لیگ اور فنکشنل لیگ مشترکہ امیدوار کھڑے کر کے پیپلز پارٹی کو ٹف ٹائم دینے کا سوچیں۔
حالیہ فیصلے کے بعد اپوزیشن کی یہ جماعتیں بھی انتخابات جلدی کرانے کے حق میں نہیں ہونگے۔ کیونکہ وہ لابنگ کر کے نئی صف بندی کرنے کی کوشش کریں گی۔
سندھ کے قوم پرست جو اب تک بلدیاتی انتخابات سے لاتعلق بیٹھے تھے وہ بھی میدان میں آسکیں گے۔ کیونکہ ان کو اب وقت بھی ملا ہے، پرانی حلقہ بندیاں بحال ہوئی ہیں اور انہیں نواز لیگ کی حمایت بھی حاصل ہوگی۔
اس مخمصے میں عام امیدوار بچارہ پریشان ہے۔ وہ تین مرتبہ کاغذات نامزدگی داخل کرانے بعد امیدوار بھی نہیں بن سکا، وہ پیسے اور کاغذ جمع کرانے کی رسیدیں سنبھال کے بیٹھا ہے۔ ایک بار پھر اس کی تمام بھاگ دوڑ، سیاسی جماعتوں برادریوں اور مخلتف حلقوں کی گئی لابنگ رائگاں گئی۔ اگلی مرتبہ جب انتخابات کا اعلان ہوگا، اسے نئے سرے سے ووٹروں، مختلف گروہوں اور برادریوں سے رجوع کرنا پڑے گا کیونکہ اب جب انتخابات ہونگے تو منظر نامہ اور صف بندیاں تبدیل ہوچکی ہونگی۔