جینے کی جدوجہد
لگ بھگ چھ برس یا اس سے کچھ زیادہ عرصہ ہونے کو آیا، تیزی سے بڑھتی مہنگائی اور ضروریات زندگی کو پورا کرنے کی خاطر کم پڑتی آمدنی کے سبب، معاشرے کے نچلے اور متوسط طبقے کے لیے جینا دوبھر ہوتا جارہا ہے۔ مہنگائی کے حوالے سے سن دوہزار تیرہ سب سے مشکل برس تھا۔
حتیٰ کہ، اب تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ متعدد خاندان سن دو ہزار چودہ میں اپنے 'موجودہ معیارِ زندگی' کو برقرار رکھنے کی امید ہی کھو بیٹھے ہیں۔
توانائی، خوراک، علاج و معالجہ اورتعلیم کے بڑھتے اخراجات کامقابلہ کرنے میں، بہت سارے اپنی عمر بھر کی جمع پونجی پہلے ہی، گذشتہ چند برسوں کے دوران خرچ کرچکے ہیں۔
زیرِ نظر، (ڈان) اخبار کے بزنس صفحات پر بدھ کو شائع شدہ ایک رپورٹ کے مطابق، گذشتہ برس کے وسط سے لے کر دسمبر تک پر مشتمل، سال کے دوسرے نصف کے درمیان مہنگائی میں واضح اضافہ ہوا جبکہ اس مدت کے دوران حکومت کے معاشی و مالیاتی اصلاحات منصوبے کے تحت سخت ترین اقدامات کے نفاذ کا فائدہ بھی صرف دولتمندوں کو پہنچا۔
نئے برس بھی، عوام کی اکثریت کو ضروریات زندگی کی بڑھتی قیمتوں میں کسی قسم کی ریلیف دینے کا کوئی وعدہ نہیں ہے۔
ایسے میں، وزیرِ اعظم کی جانب سے دسمبر کے دوران پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کو گذشتہ ماہ کی سطح پر برقرار رکھنے کی ہدایت میں بھی تعجب کی کوئی بات نہیں، اس حکمنامے نے بھی کچھ زیادہ لوگوں کو متاثر نہیں کیا تھا۔
کنزیومر پرائس انڈیکس، ہول سیل پرائس انڈیکس یا حساس پرائس انڈیکس ہو، دنیا بھر میں حکومتوں اور معیشت دانوں کے لیے یہ معمول کی بات ہے کہ وہ قیمتوں میں ہونے والے بھاری اضافے سے شہریوں کو بچانے کی خاطر، صارفین کے مختلف گروہوں کے لیے ضروریاتِ زندگی پر ایک اوسط سہولت ضرور فراہم کرتے ہیں۔
یہ اشاریے (انڈیکس) پوری کہانی کا صرف ایک چھوٹا سا حصہ ہی بیان کرتے ہیں۔ کوئی انڈیکس یہ نہیں بتاسکتا کہ بجلی کے نرخوں میں پچاس فییصد اضافے کے بعد کتنے خاندانوں نے اپنے بچوں کو اسکول بھیجنا بند کردیا ہے۔
نہ ہی کسی اور اشاریے میں یہ قوت ہے کہ وہ بتاسکے کہ راتوں رات خوردنی تیل کی قیمت میں اضافے کے سبب کتنے مرد، عورتیں اور بچے رات کو خالی پیٹ سونے پر مجبور ہیں۔
کیا ہم نے اپنے رشتہ داروں اور احباب کو صرف اس لیے بیماری کے علاج کی خاطر ڈاکٹر کو دکھانے سے گریز کرتے نہیں دیکھا کہ یوں انہیں 'متعدد اہم' اخراجات کا گلا گھوٹنا پڑتا؟
مستقل بڑھتی مہنگائی اور بے روزگاری کے باعث، شدید غربت میں دھکیل دیے جانے والوں کی درست ترین تعداد جاننے کے لیے، پالیسی سازوں کو چاہیے کہ اعداد و شمار مرتب کرنے کا حکم دیں۔
جب تک حکومت، معیشت و مالیات کی پالیسیوں کو، درکار خطوط پر استوار کر کے ٹھیک نہیں کرتی، تب تک ایک عام پاکستانی کی زندگی میں بہتری آنے کی کچھ زیادہ امید نہیں ہے۔