بدستور مشکل میں
اگر کوئی شخص سڑک پرکھڑے ہو اپنی قسمت کا رونا، رونا شروع کردے تو گنوانے کے لیے بدقسمتی کی وجوہات کچھ کم نہیں ہوں گی۔ ایک ایسے ملک میں کہ جہاں شہریوں کو اب تک نہایت بنیادی نوعیت کی سہولتیں اور حقوق زیادہ حاصل نہیں، یہی وجہ ہے کہ ان کی اکثریت بے یقینی کا شکار ہے: وسائل کمیاب اور زندگی مشکل تر ہوتی جارہی ہے۔
مثال کے طور پر، ذرا اسی قلت پر ہی غور کرلیجیے جس کا شہریوں کو رواں سال سامنا کرنا پڑاہے۔ موسمِ گرما کے دوران گھنٹوں تک بجلی بند، چاہے شہر ہوں یا دیہات، بجلی کی بندش نے دونوں ہی کے مکینوں کو اذیت سہنے اور ایسے احتجاج پر مجبور کیا جو اکثر تشدد کا روپ دھارلیتے ہیں۔
قدرتی گیس کی بڑھتی قلت کا مطلب کہ صنعتوں کے واسطے فراہمی میں کمی، جس کا نتیجہ آمدنی اور ملازمت، دونوں کا متاثر ہونا اور سڑک پر نکلو تو سی این جی کی خاطر کھڑی گاڑیوں کی لمبی لمبی قطاریں۔ پلٹتے ہیں سردیوں کی طرف جہاں مسئلہ اور زیادہ شدت پکڑچکا۔
ملک بھر میں موسمِ سرما کے دوران گیس کا استعمال بڑھنے کا نتیجہ پریشر میں کمی، جس سے گھر کو گرم کرنا درکنار، وہاں تو چولہا جلانے کے لیے بھی ضرورت کے مطابق گیس میسر نہیں۔
علاوہ ازیں، پیر کو حکومت نے اعلان کرڈالا کہ اب ملک گیر سطح پر جاری لوڈ شیڈنگ کے دورانیے میں مزید اضافہ ہوگا، اس طرح بعض علاقوں میں یہ دورانیہ شاید دس گھنٹوں تک پر بھی محیط ہوسکتا ہے۔
اس کی وجہ یہ بیان کی جارہی ہے کہ صنعتوں کو گیس کی فراہمی سے طلب و رسد کے درمیان فرق بڑھ چکا، دوسری طرف نہروں کی بندش سے بجلی کی پیداوار متاثر ہوئی ہے، یوں بجلی کی قلت بھی طلب سے کافی کم ہوچکی۔
اس حوالے سے وزارتِ بجلی و آب پاشی کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ 'لوڈ شیڈنگ کے باعث شہریوں کو ہونے والی زحمت پر افسوس ہے'۔
اگر یہ مسئلہ چند لوگوں تک محدود ہوتا یا پریشانی کی کوئی چھوٹی موٹی بات ہوتی تو معذرت کا یہ بیان بھی شاید کافی رہتا لیکن جو صورتِ حال درپیش ہے، اس میں سوچ سکتے ہیں کہ آیا ریاست ایک ایک کرے اپنے شہریوں کے حوالے سے خود پرعائد ذمہ داریوں سے ہاتھ کھڑے کرتی جارہی ہے یا پھر وہ انہیں مشکلات کا حل خود ڈھونڈنے پر چھوڑ رہی ہے۔
داخلی شعبے میں لوڈ شیڈنگ سے سب سے زیادہ متاثر عام طبقہ ہوتا ہے؛ بجلی کی لائن بے جان ہوتے ہی چہار سُو سے امراء کے جنریٹروں کا شور گونجنا شروع ہوجاتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی گیس کی فراہمی میں تعطل آجاتا ہے جس سے گھروں کے روز مرہ معمولات بری طرح متاثر ہونے لگتے ہیں۔
یقیناً، ریاست سے یہ جائز توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ حالات بہتر کرنے کی کوشش کرے، یہ نہیں کہ قلت کا رونا رو کر عالمِ پریشانی میں ہاتھ کھڑے کردے۔