مذہب کے ٹھیکیدار اور عام مسلمان
۔ انفرادی اور اجتماعی دونوں ہی سطح پر اکثر ہمیں یہ سوال پریشان کرتا ہے کہ مسلم معاشرے کیسے دنیا کے سب سے زیادہ سفاک اور رسوا کن معاشروں میں بدل گئے-
وہ نہ صرف دوسروں پر جنگ تھوپتے ہیں بلکہ آپس میں بھی جنگ میں مصروف رہتے ہیں، اپنے ہی لوگوں کو قتل اور ریپ اور بہیمانہ جرائم کا شکار بناتے ہیں، ستم ظریفی یہ کہ یہ سب اسلام کے نام پرکرتے ہیں۔ وہ ایک کتاب کے نام پر قتل کرتے ہیں اور عجیب بات یہ ہے کہ کتابیں پڑھنے کو بھی جرم گردانتے ہیں۔ وہ زندگییاں ختم کردیتے ہیں، دولت تباہ کردیتے ہیں، اور لوگوں، عورتوں اور بچوں کو بے عزت کرنے میں ان کو کوئی عار نہیں- اور یہ سب کچھ مذہب کے نام پر اور پیغمبر صلعم کے نام پر جنہوں نے ہمیں سکھایا کہ برداشت، امن، رحم، اور درگزر اللہ تعالیٰ کا پسندیدہ ترین عمل ہیں-
وہ ہر موقع پر قران شریف کو بیچ میں لاتے ہیں، کہ اسلام کو بچانے کیلئے یہ ضروری ہے اور شریعت کا حوالہ دیکر اپنے عمل کا جواز پیش کرتے ہیں- کبھی کبھی ایسے لوگ جو عسکریت پسند بھی نہیں ہوتے لیکن ایسے اصولوں پر عمل کرتے ہیں جو انصاف اور رواداری کے بالکل خلاف ہوتے ہیں-
نام نہاد مذہبی علماء مسئلوں کی غیر لچکدار متضاد قسم کی تشریحات پیش کرتے ہیں جو ایک دوسرے سے مکمل طور پر مختلف ہوتی ہیں، اور مسلمانوں کی زبوں حالی کا تمام تر الزام امریکہ اور یہودیوں کے سر پر (بلکہ ایک دوسرے پر بھی) ڈالتے ہیں-
یہ سب ہوتا رہتا ہے اور دنیا آگے بڑھتی رہتی ہے، معلومات کی دنیا میں بڑے معرکے مارتی رہتی ہے اور مادی وسائل پر ان کا تسلط، اور قدرتی سائینس پر ان کی گرفت بڑھتی جاتی ہے، کسی کو یاد بھی نہیں ہوتا کہ مسلمان سائینس دانوں نے جدید ریاضی، فزکس اور اجرام فلکی کے علوم کے بنیادی اصول اپنے استدلال اور منطق کی بنیادوں پر طے کر کے دنیا کے حوالے کئے تھے- پھر کیا ہوا؟
راستے میں کہیں، مسلمانوں نے اسلام کے اصل پیغام کو بھلا دیا، وہ اصل پیغام، جو قران نے سچے مسلمانوں کےلئے بار بار اپنی ہدائتوں میں دہرایا تھا کہ غورسے دیکھو اور سوچو، پڑھو اور سنو، جسے سب نے اندھی تقلید، بے سوچے سمجھے عمل اور بے جا تعصب میں بھلا دیا-
جہاں اسلام نے رواداری کا سبق دیا، مسلمانوں نے دشمنی، بغض و کینہ اختیار کیا- جہاں اسلام نے انصاف اور ایمانداری کی بات کی وہیں انہوں نے ناانصافی اور ظلم و ستم کو روا رکھا- جہاں تحمل اور اعتدال کیلئے کہا گیا وہاں مسلمان دوغلے پن اور مذہبی کٹر پن کا شکار ہوگئے- اور جہاں اسلام اپنا پیغام محبت اور رحم دلی سے پھیلانے کا سبق دیتا ہے، مسلمان اسے نفرت اور تشدد سے پھیلاتے ہیں-
بہت سارے مسلمان، درحقیقت، اسلام جو پیغام دیتا ہے اس کی ضد بن گئے ہیں- مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد، آج قران اور سنت کی تشریح طالبان اور دنیا بھرمیں ان کے ہم خیالوں کے عقائد اور اعمال کو پیش نظر رکھ کر ان کی تائید کے طور پر کررہی ہے- اس طرح کی تشریحات نے لاکھوں لوگوں کومصیبت میں مبتلا کردیا ہے، اکثر و بیشتر مذہب کی بنیاد کے بارے میں سوالات کھڑے کردئے ہیں-
جیسے کہ چند شدید نقصان دہ تشریحات یہ ہیں:
جہاد کا مطلب ان لوگوں کو قتل کردینا ہے جو مسلمانوں کے کسی گروہ کی نظر میں دشمن اسلام ہیں، اور کوئی فرد یا گروہ ایسے دشمن کے خلاف ہتھیار اٹھا سکتا ہے؛
عورتوں میں مردوں کی نسبت صرف آدھی عقل ہے (اور آدھی قیمت) اور ان کی گواہی مرد کے مقابلے میں آدھی ہے؛
کسی شخص پر اسلام یا رسول اللہ صلعم کے خلاف کچھ کہنے یا لکھنے کا الزام ہو تو اس کی سزا موت ہے؛
جو اسلام سے منحرف ہوجائے اس کی سزا موت ہے؛
زنا کی سزا سنگ باری کے ذریعہ موت ہے؛
ہرقسم کی تعلیم سوائے قران کے غیر اسلامی ہے؛
تمام حدیثوں پر یقین کرنا ضروری ہے اور خدا مسلمانوں سے یہ چاہتا ہے کہ وہ دنیا کو فتح کرکے ماضی کی عظمت واپس حاصل کرلیں-
اس میں سے کچھ فرض کردہ احکامات کچھ لوگوں کے گروہوں کے لئے ایک مخصوص زمانے سے متعلق تھے، ان میں سے کچھ خاص مسائل سے متعلق تھے جو بدقسمتی سے بہت زیادہ توڑ مروڑ دئے گئے ان کا مفہوم بھی غلط سمجھا گیا ---- اپنے صحیح معنی سے بالکل مختلف --- اوراب وہ کچھ ملکوں کے آئین کا حصہ بھی بن گئے ہیں، پاکستان بھی انہیں میں سے ایک ہے-
اب وہ بڑے پیمانے پر اور کھلے بندوں استعمال کئے جاتے ہیں، چھوٹے اور بڑے ہر قسم کے جرائم کے جواز کے طور پر استعمال ہوتے ہیں، اور اگر کوئی ان کے بارے میں سوال کرنے کی یا ان کے صحیح مفہوم یا ان کی از سر نو تشریح کی جرأت بھی کرے تو فوراً اس کے خلاف کفر کا فتویٰ یا اسلام دشمنی کا الزام لگ جاتا ہے-
جیسا کہ ایک صحافی کہتا ہے، پاکستان اس وقت مذہبی دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے، اور یہ صرف غیرمسلم ہی نہیں بلکہ سوچ سمجھ رکھنے والے مسلمان بھی سمجھتے ہیں کہ ملک کی فضا میں آزادی کی سانس لینا بھی دوبھر ہو گیا ہے-
ہم جیسے لوگوں کے لئے جو مسلمان ہیں ہمارے دوسرے مسلمان دوستوں کی کوششوں کے باوجود کہ ہم اسلام سے برگشتہ ہو جائیں، ہمارے پاس دو سچے اسلامی ذرائع قران اور سُنّت موجود ہیں- ہمیں قران کی ہر آیت کو سمجھ کر پڑھنے کی ضرورت ہے، اس مقصد سے کہ ہمارے سوالوں کے جواب مل جائیں-
ہم جب آئتوں اور ان کی تشریحوں اور تفسیروں کی گہرائی میں جاتے ہیں تو ہمیں اپنے دلائل اور تجزیاتی سوچ کے ساتھ جانا چاہئے اور اگر ہمیں کہیں جو پڑھا ہے اسے سمجھنے میں کوئی مشکل ہو تو مذہبی سکالرز کی مدد لینی چاہئے- غیر مسلم بھی اس طریقے سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں-
اتنا ہی اہم ہمارے لئے مذہبی اختلافات کو بھلانا بھی ہے، چاہے وہ مسلمان فرقوں کے درمیان ہو یا دوسرے مذاہب کے بارے میں- ہمیں متعصب اور ہٹ دھرمی پر مبنی بیانات کے سامنے ڈٹ جانا چاہئے چاہے وہ نام نہاد مذہبی شخصیتوں کی جانب سے ہی کیوں نہ ہوں-
ہمیں ایک دوسرے کی مسجدوں میں عبادت بھی کرنا چاہئے اور دوسرے مذاہب کے لوگوں کو بھی اپنی مسجدوں میں آنے کی حوصلہ افزائی کرنی چاہئے تاکہ انکے دل میں اگر کوئی خوف ہو تو اس میں کمی ہوسکے-
ہمیں قاتلوں کی ہر صورت میں مذمت کرنی چاہئے، چاہے وہ جو بھی ہوں، ہر قسم کے جبر کے خلاف آواز بلند کرنی چاہئے چاہے وہ کہیں بھی ہورہا ہو- سب سے بڑھ کر، عام مسلمانوں کو عالموں کے خوف اور رعب سے باہر آکر ان سے سوالات پوچھنے کیلئے تیار رہنا چاہئے، ادب سے سچائی جاننے کی پرخلوص خواہش کے ساتھ-
موجودہ عہد کے ایک بہت بڑے عالم مولانا امین احسن اصلاحی، جنہوں نے اپنی بہترین تفسیر تدبر قران لکھی ہے، قران کو سمجھنے کی ایک بالکل نئی راہ کا تعین کیا ہے- انھوں نے ایک بار کہا تھا، "کسی بھی انسان کیلئے ایک سچے مذہب سے بڑی نعمت کوئی نہیں ہوسکتی اور ایک جھوٹے مذہب سے زیادہ بری شے کوئی نہیں ہوسکتی-"
ترجمہ: علی مظفر جعفری
تبصرے (2) بند ہیں