• KHI: Zuhr 12:19pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:50am Asr 3:23pm
  • ISB: Zuhr 11:55am Asr 3:23pm
  • KHI: Zuhr 12:19pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:50am Asr 3:23pm
  • ISB: Zuhr 11:55am Asr 3:23pm

آگے راستہ ہے

شائع December 13, 2013
اعلٰی عدلیہ کے نئے دور کا آغاز، اسے اپنے تخلیق کردہ چیلنجز سے بھی نمٹنا ہوگا۔  سپریم کورٹ فائل فوٹو۔۔۔۔۔
اعلٰی عدلیہ کے نئے دور کا آغاز، اسے اپنے تخلیق کردہ چیلنجز سے بھی نمٹنا ہوگا۔ سپریم کورٹ فائل فوٹو۔۔۔۔۔

طویل الوداعی مرحلہ طے ہوا، اب اعلٰی عدلیہ میں، چوہدری کے بعد کا عہد شروع ہورہا ہے۔

چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی جس ادارے کا اختیار سنبھال چکے، وہ اس سے کہیں مضبوط تر ہے جتنا کہ ورثے میں افتخار چوہدری کو ملا تھا لیکن اب بھی ایک طویل سفر طے کرکے اس مقام تک پہنچنا باقی ہے، جہاں اعلیٰ عدلیہ خود کو ایسے حقیقی اور مثالی ادارے میں بدل سکے جو قانون و آئین کی حدود میں رہتے ہوئے شہریوں کے حقوق کا تحفظ کرتی ہے۔

اعلٰی عدلیہ کو بہت سے درپیش چیلنجوں سے نمٹنا ہوگا، جن میں سے ایک خود اس کا اپنا تخلیق کردہ ہے: یہ ہے بنیادی حقوق کے تحفظ کی خاطر ازخود نوٹس لینے کا اختیار۔

یہ درست ہے کہ عالمی طور پر ازخود نوٹس کا اختیار، آئین میں شہریوں کو دیے گئے بنیادی حقوق کے تحفظ کی ضمانت دینے کی خاطر ہے، جوعدلیہ کو شہریوں کے سماجی و معاشی حقوق حتیٰ کہ قدرتی ماحول کی حفاظت کی خاطر بھی اس اختیار کو استعمال کرنے کی اجازت دیتا ہے۔

لیکن یہاں فعال سپریم کورٹ نے اس اختیار کو ناپسندیدگی کی حد تک استعمال کرتے ہوئے، اپنی مداخلت کو متنازع بنادیا، جیسے 'میمو گیٹ' اور گذشتہ صدارتی الیکشن کے متنازعہ شیڈول کی صورت میں بھی سامنے آچکا ہے۔

شاید اب وقت آچکا کہ عدلیہ ظاہر کرے کہ از خود نوٹس کے اختیار کی مناسب حدود کیا ہیں اور اس ضمن میں اعلیٰ عدلیہ کے لیے ایک واضح گائیڈ لائن جاری کرے کہ کب اور کہاں اس اختیار کو استعمال کیا جاسکتا ہے۔

ایک دوسرا شعبہ جسے اعلٰی عدلیہ کے توجہ کی اشد ضرورت ہے وہ ہے نچلی سطح پر انصاف کی فراہمی کا نظام، یہی وہ مقام ہے جہاں سب سے پہلے شہری عدلیہ سے رجوع کرتے ہیں۔

یہ مکمل طور پر اعلٰی عدلیہ کی ذمہ داری بھی نہیں ہے: اگرچہ چیف جسٹس سپریم کورٹ ملک کے عدالتی نظام کے انتظامی سربراہ بھی ہیں تاہم نچلی سطح پر فراہمیِ انصاف کے نظام کی ازسرِ نو تشکیل، وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے ساتھ بڑے پیمانے پر مشاورت اور تعاون کا بھی تقاضا کرتی ہے۔

لیکن اعلٰی عدلیہ کے لیے یہ ممکن ہے کہ وہ نچلی سطح پر مزید باوقار، موثر اورشفاف عدلیہ کے قیام کی خاطر روڈ میپ کی تشکیل میں رہنمائی فراہم کرے۔

تیسرا اوراوپر بیان کردہ دونوں نکات سے جُڑا نقطہ، یہ ضرورت ہے کہ اعلٰی عدلیہ اپنے وژن اور مقاصد کی ازسرِ نو تشریح کرے۔

اخبارات کی روزانہ شہ سرخیوں میں جگہ پانے والے بنچ کے تند و تیز ریمارکس یا عبوری حکمنامے، جو کبھی کبھی کافی تاخیر سے آنے والے تفصیلی فیصلے کی حمایت کرتے ہیں، یہ درحقیقت عدلیہ کے ارتقائی مراحل یا ادارے کے استحکام کے مفاد میں نہیں ہیں۔

البتہ، جہاں نظام کو جھنجھوڑنے کی ضرورت ہو، جیسا کہ لاپتا افراد کے کیس میں دکھائی گئی بے حسی تھی، تو وہاں یہ رویہ عملی طور پر مددگار ہوسکتا ہے لیکن باقی تمام معاملات میں عدلیہ کے لیے بہتر ہے کہ وہ تحمل اختیار کرے۔

انگریزی میں پڑھیں۔

ڈان اخبار

کارٹون

کارٹون : 26 نومبر 2024
کارٹون : 25 نومبر 2024