• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:12pm
  • LHR: Zuhr 12:01pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:26pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:12pm
  • LHR: Zuhr 12:01pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:26pm

ڈرون عرف ابابیل ولد سی آئی اے

شائع December 11, 2013
عمران خان -- فائل فوٹو
عمران خان -- فائل فوٹو

جن دنوں میرا آبائی قصبہ چنیوٹ ضلع جھنگ کی تحصیل ہوا کرتا تھا انہی دنوں وہاں ایک اسسٹنٹ کمشنر تعینات ہوئے جو اپنے شہری بیک گراؤنڈ کی وجہ سے ہم پینڈوؤں اور ہمارے پنڈ کے بارے میں وہی کچھ جانتے تھے جو انہوں نے اپنے بچپن میں پہلی دوسری کسی کلاس میں دارا کا گاؤں نامی سبق میں پڑھا تھا۔

ان دنوں عدلیہ نے ابھی انتظامیہ کو تین طلاقیں نہیں دیں تھیں اور اے سی صاحبان آرڈر جاری کرنے کے علاوہ لکڑی کا ہتھوڑا پکڑے آرڈر آرڈر پکارتے بھی پائے جاتے تھے۔ ابھی اپائنٹمنٹ کو کچھ ہی دن گزرے تھے کہ صاحب کی عدالت میں قریبی گاؤں کا ایک مقدمہ پیش کیا گیا۔ مقدمہ کسی کھیت کو پانی لگانے کے لیے کسی کھالے میں بنائے گئے موگہے پر جھگڑے کا تھا۔ تفصیل تو اب مجھے یاد نہیں لیکن غالبا کسی چودھری نے موگہ کا منہ غیر قانونی طور چوڑا کر لیا تھا جس کی وجہ سے موگہے سے آگے کھیتوں کو پانی پورا نہیں مل پا رہا تھا۔

اس مسئلے پر ہونے والی روایتی سی سر پھٹول کا مقدمہ جب اے سی صاحب کے پاس آیا تو انہوں نے مدعی سے پوچھا کہ؛

'ہاں بھئی اپنا نام بتاؤ اور بولو مسئلہ کیا ہے۔'

مدعی نے ہاتھ جوڑ کر کہا؛

'سرکار میرا نام رکّھا ہے اور مسئلہ موگہے کا ہے۔'

اے سی صاحب نے کہا؛

'اچھا، موگہ کہاں ہے اسے حاضر کرو۔'

اے سی صاحب کا یہ نادر شاہی حکم سن کر وہ دیہاتی ہکّا بکّا رہ گیا کہ بھلا اب پانی کے کھال اور موگہے کو عدالت میں کیسے لایا جائے۔ اسے خاموش دیکھ کے صاحب کو غصہ آ گیا اور انہوں نے اسے ڈانٹ پلاتے ہوئے کہا کہ یہاں کھڑے میرا منہ کیا دیکھ رہے ہو جاؤ موگہے کو لے کر آؤ۔

عدالت کا ایک اہلکار دیہاتی کی مدد کو آگے بڑھا اور اس نے صاحب کے کان میں سرگوشی کی کہ صاحب موگہ نہیں آ سکتا۔

صاحب نئے نئے افسر بنے تھے انہوں نے اس دخل اندازی کو اپنی توہین سمجھا اور اہلکار کو جھڑکتے ہوئے بولے تم بیچ میں مت بولو مجھے سب پتا ہے تم سب آپس میں ملے ہوئے ہوتے ہو اسے کہو کہ اگلی پیشی پر موگہے کو حاضر کرے۔ اسے کیا تکلیف ہے وہ کیوں نہیں آسکتا اگر بیمار ہے تو اس کا میڈیکل بنوا کر لاؤ۔ ڈس مس۔

اگلی پیشی پر کیا ہوا معلوم نہیں۔ موگہ آیا یا اس کا میڈیکل یہ تو خدا ہی جانے لیکن کچھ دن پہلے میں نے تحریک انصاف کی پڑھی لکھی قیادت کی طرف سے ڈرون عرف ابابیل ولد سی آئی اے کے خلاف افغانستان سے زرعی ادویات کی خریداری کے لیے آنے والے حقانی گروپ کے کسانوں کے قتل کی ایف آئی آر کٹوانے کی خبر سنی تو مجھے لگا کہ یا تو تحریک انصاف کی انٹلکچوئل قیادت پاکستان کی قومی سلامتی کے کھیتوں میں اگنے والے تربوزوں، سٹریٹیجک ڈیپتھ کی گہرائیوں میں بہتے پانی اور ڈیورنڈ لائن پر بنے موگہوں سے ہمارے اے سی صاحب جتنی ہی واقف ہے یا پھر اسے لگتا ہے کہ پاکستان میں اس کے سوا سارے اے سی ہی بستے ہیں اور دیہاتی اگر کوئی ہے بھی تو وہ مائی باپ سرکار کہہ کر ہاتھ جوڑے گا اور جان کی امان پائے گا۔

پاکستان میں ڈرون حملوں کی حمایت اگرچہ کسی سیاسی جماعت نے نہیں کی لیکن تحریک انصاف کے علاوہ باقی پارٹیاں ڈرون حملوں کی مخالفت میں آواز اٹھانے پر بھی آمادہ نظر نہیں آتیں۔

سیاسی جماعتوں کی اس خاموشی کو صحافی لوگ عام طور پر عوامی مقبولیت کھونے کے خوف سے تعبیر کرتے ہیں۔ لیکن ڈروں حملوں پر تحریک انصاف کی کال کے جواب میں پختونخواہ میں عوامی ردعمل کو دیکھ کر ایسا محسوس نہیں ہوتا کہ ڈرون حملے عوام میں کوئی بہت غیر مقبول ہیں۔

شائد یہی وجہ ہے کہ پہلے دن جمع ہونے والے لوگوں کی تعداد نا صرف غیر متاثر کن تھی بلکہ ایک ہی ہفتے میں اس تعداد کے درجنوں تک رہ جانے سے لگتا ہے کہ اس احتجاج کا تعلق عوامی مقبولیت سے نہیں بلکہ کوئی معشوق ہے اس پردہ زنگاری میں ۔۔۔

بہرحال معاملہ جو کچھ بھی ہو ڈروں حملوں کی مخالفت میں پاکستان سے اٹھنے والی سب سے اونچی بڑھکیں تحریک انصاف کی ہی ہیں۔ لیکن اس اونچی ترین آواز نے بھی ڈروں حملوں کی مخلافت میں جو دلیلیں تراشی اور عوام کے سامنے پیش کی ہیں وہ کم سے کم الفاظ میں بودی یک طرفہ اور کھوکھلی ہیں۔ تحریک انصاف کے ڈرون پر موقف سے ان کی امریکہ سے نفرت یا طالبان سے محبت تو جھلکتی ہے لیکن اس میں پاکستانی عوام کی محبت کہیں نظر نہیں آتی۔

تحریک انصاف کا وہ موقف جو تحریک کے عہدے دار اور خود خان صاحب بہت باقاعدگی سے دوہراتے رہے ہیں دہشت گردی اور ڈروں حملوں کے تعلق پر مبنی ہے۔ دہشت گردی اور خود کش حملے ڈرون کی وجہ سے ہوتے ہیں، ڈروں رک جائیں تو دہشت گردی ختم ہو جائے گی، یہ گفتگو تحریک انصاف کی طرف سے ہر دہشت گرد حملے کے بعد دیے جانے والے بیان کا حصہ ہوتی ہے ۔

تحریک انصاف کا کہنا یہ ہے کہ ڈروں حملوں میں مارے جانے والے لوگوں کے لواحقین انتقام لینے کے لیے خودکش حملوں اور دوسری دہشت گرد کاروائیوں کا حصہ بنتے ہیں۔ ممکن ہے کہ یہ بات درست ہو لیکن کیا وجہ ہے کہ طالبان کے حملوں کا نشانہ بننے والے پچاس ہزار لوگوں میں سے کسی ایک کے ورثا نے بھی اس طرح کے ردعمل کا اظہار نہیں کیا؟

کیا 'انصافی' لاجک کے عین مطابق ان بے گناہ مرنے والوں کے ورثا کو بھی حکومت کی بے حسی اور طالبان کے خلاف ایکشن نہ لینے پر خود ہتھیار نہیں اٹھا لینے چاہئیے تھے؟

پھر آج تک نارتھ وزیرستان میں طالبان کے ٹھکانوں یا ان کی حمایت کرنے والی سیاسی جماعتوں کے جلسے جلوسوں پر کوئی خودکش حملہ کیوں نہیں ہوا؟

خودکش حملوں کا نشانہ بننے والوں کے ورثا کا ردعمل سامنے نہ آنے کی ایک وجہ ان کے کسی فاشسٹ مذہبی جماعت سے تعلق نہ ہونے کے علاوہ یہ بھی ہے کہ فاٹا کے بر خلاف شہری علاقوں وہ انتہا پسند تنظیمیں کھلے عام کام نہیں کر رہیں جو فاٹا میں مذہبی جنونیوں اور متوقع دہشت گردوں کو سرمایہ سے لے کر تربیت اور بارود سے لے کر بال بئیرنگ تک سب کچھ فراہم کرتی ہیں۔ اگر فاٹا میں جو آخری اطلاع آنے تک پاکستان کا حصہ تھا، حکومت ان تنظیموں کو کام کرنے سے روک دے تو ڈرون حملے اور بقول تحریک انصاف جوابی حملے رک سکتے ہیں۔

ڈرون رکیں یا نا رکیں ان تنظیموں کو کام کرنے سے روکے بغیر دہشت گردی اور انتہا پسندی پر قابونہیں پایا جا سکتا، جو تحریک انصاف ہمیں سمجھانے کی کوشش کر رہی ہے۔ بلکہ ڈرون حملوں کے رکنے کی صورت میں ان تنظیموں کو اور کھل کر کام کرنے کا موقعہ مل جائے گا کیوں کہ ہمارے یہاں ابھی تک وہ سکہ نہیں اچھالا جا سکا جس کے ایک طرف آپریشن اور دوسری طرف مذاکرات لکھا ہوا ہے۔

دوسرا موقف جو تحریک ان حملوں کے خلاف لیتی رہی ہے، یہ ہے کہ ان حملوں میں بے گناہ شہری مارے جاتے ہیں ۔ اگرچہ سول حکومت نے ان بے گناہ شہریوں کی تعداد 67 بتائی ہے لیکن اگر امریکہ کی ایجنٹ حکومت کے اعداد و شمار کو نظر انداز بھی کر دیا جائے تب بھی بین الاقوامی اداروں کی بتائی گئی تعداد کے حساب سے تحریک انصاف کا احتجاج غیر متناسب معلوم ہوتا ہے۔

بین الاقوامی ادارے اور تنظیمیں ان حملوں میں مرنے والوں کی جو تعداد بتا رہے ہیں وہ سڑسٹھ تو نہیں لیکن ان اداروں میں سے کسی کی بتائی گئی تعداد بھی چار ہندسوں کو نہیں چھوتی جبکہ دوسری طرف اس دہشت گردی سے جو ڈروں نہیں بلکہ طالبان اور دوسری فاشسٹ اسلامی جماعتوں کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے. مارے جانے والوں کی تعداد پچاس ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔ اگر اس بات کو بھی ایک طرف رکھ دیا جائے کہ مرنے والوں کی تعداد کیا تھی تب بھی ڈرون مخالف جماعتوں کو طالبان کی مذمت بھی کم سے کم اسی شدت سے کرنی چاہئیے جس شدت سے وہ ڈرون حملوں کی مخالفت کر رہی ہیں۔ لیکن یہاں حالات یہ ہیں کہ طالبان کا نام آتے ہی نئی پرانی جماعت اسلامیاں نئی نویلی دلہن کی طرح گھونگٹ نکال کے سر جھکا لیتی ہیں۔

ایک اور دلیل جو ڈروں حملوں کی مخالفت میں دی جاتی ہے یہ ہے کہ ڈروں حملے پاکستان کی خودمختاری کی پامالی ہیں۔ اب یہ سمجھنا مشکل ہے کہ پاکستان کہ خود مختاری زمین سے کوئی چھ فٹ اوپر سے کیوں شروع ہوتی ہے؟ وہ افغان، عرب، چیچن اور ازبک جو ان قبائلی علاقوں میں بے روک ٹوک پھرتے ہیں اور ان ڈروں حملوں میں مارے جاتے ہیں کیا وہ ان علاقوں میں پاکستان کی اجازت سے رہ رہے ہیں؟

ان کے ویزے پر انٹری کا ٹھپہ تحریک انصاف نے لگایا ہو تو لگایا ہو پاکستان حکومت کی آفیشل مہر تو ان کے کاغذوں پر کہیں موجود نہیں۔ کیا ان کا یہان رہنا پاکستان کی خود مختاری کی خلاف ورزی نہیں ہے؟

ہوا میں معلق اس خود مختاری کو کوئی کیسے تسلیم کرے جب اسٹریٹجک ڈیپتھ کی گہرائیوں سے نکل کر کابل پر حملہ آور ہونے والے مجاہد حملے کے بعد ریلیکس کرنے کے لیے اسی خود مختاری کی ناک کے نیچے لمبے لمبے لیٹے ہوتے ہیں اور خودمختاری کو نظر بھی نہیں آتے۔

خودمختاری کو اگر سی ایس ڈی کے بجائے کسی سول دکان سے خریدا جائے تو اس کے طریقہ استعمال کے پرچے میں یہ بھی لکھا ہوتا ہے کہ اپنی خودمختاری کی لاٹھی گھماتے ہوئے ہمسایوں کا ناک بچانا بھی آپ کی ذمہ داری ہے۔

رد ڈرون میں ایک دلیل یہ بھی دی جاتی ہے کہ ڈرون قوانین کی خلا ف ورزی ہیں۔ یقیناً ڈرون بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہیں لیکن ہماری تزویراتی گہرائی کی کھائی میں گر کر بین الاقوامی قوانین کے لمبے ہاتھوں میں جو ملٹیپل فریکچر ہوئے ہیں اس پر اگر اقوام متحدہ نامی کسی چیز نے ہمیں شامل تفتیش کر لیا تو کیا نتیجہ نکلے گا یہ سو چنا بھی ضروری ہے۔

بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہونے کی وجہ سے ڈروں کی مخالفت کرنے والوں کو وہ جنیوا کنونشن بھی دکھا دینا چاہئیے جس کی رو سے ہم نے اسامہ کو ایبٹ آباد اور حقانی کو اسلام آباد میں سنبھالا ہوا تھا۔ رہی ان ہیروں کی فہرست جو فاٹا کی گڈری میں ہمارے پاس موجود تھے تو ان کا اندازہ لگانے کو انہی ڈروں حملوں میں مارے جانے والوں کی فہرست پڑھ لینا کافی ہے۔

ڈرون حملوں کی مخالفت کی 'اصل وجہ' جو بھی ہو وہ ہرگز نہیں بتائی جا رہی. اس صورتحال میں ڈرون مخالف جماعتوں کو یا تو یہ واضح کرنا چاہئیے کہ اس مخالفت کے اسباب کیا ہیں دوسری صورت میں انہیں نیٹو سپلائی کے خلاف نام نہاد احتجاج معطل کر کے پختونخواہ کی طرف توجہ کرنی چاہئیے ورنہ لوگ یہ نا سوچنے لگیں کہ جنہیں ہم نے صوبہ چلانے کی ذمہ داری دی ہے وہ تو صوبہ ڈھنگ سے بند کرنیکی اہلیت بھی نہیں رکھتے۔

سلمان حیدر

شاعری اور تھیٹر کو اپنی ذات کا حصّہ سمجھنے والے سلمان حیدر راولپنڈی کی ایک یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں.

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (2) بند ہیں

Kamran Dec 11, 2013 06:53pm
Excellent blog. :-)
Abdul Salam Dec 12, 2013 09:51pm
اس کم علم رائٹر کو ڈرون کو ابابیل کہنے پر ھی شرم آنی چاھیے۔ آبابیل کوئی عام پرندے نہیں تھے بلکہ اللہ کیطرف سے فرشتے تھے جو کہ ،پرندوں کی شکلوں میں آئے تھے اور اس فوج کو مار رھے تھے جو کعبہ کو گرانے آرھے تھے جبکہ ڈرون جنہیں انسان آپریٹ کرتے ھیں میں بہت سے بے گناہ لوگ مرتے ھیں۔ جو انکی وجہ سے بلاوسطہ مرتے ھیں وہ الگ ھیں۔ باقی فضولیات کے کےجوابات ھزار مرتبہ دیے جا چکے ھیں اسلیے ان پہ وقت ضائع کرنا بیوقوفی کے سوا کچھ نہیں

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024