• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

ٹک ٹک حکومت

شائع December 9, 2013
پرائم منسٹر پاکستان، میاں محمّد نواز شریف -- فائل فوٹو
پرائم منسٹر پاکستان، میاں محمّد نواز شریف -- فائل فوٹو
 **مغرب کی روایت کے مطابق جب پی ایم ایل-ن نے اپنی حکومت کے سو دن مکمل کر لئے تو اس کی ابتدائی کارکردگی کے بارے میں بہت سے مضامین لکھے گئے-**

اس حقیقت کو پیش نظر رکھتے ہوئے کہ ترقی پذیر ممالک میں معاملات کس سست روی سے آگے بڑھتے ہیں، میں نے سوچا کہ ابتدائی تجزیہ کے لئے بھی چھ ماہ کا وقت دیا جانا چاہئے، سو میں نے اپنے آپ کو قابو میں رکھا-

پاکستان کے کرکٹ کے کیپٹن مصباح الحق کو ان کی سست بیٹنگ اور دفاعی کپتانی کی وجہ سے۔ شومئی قسمت سے، مسٹر ٹک ٹک کے نام سے یاد کیا جاتا ہے- چھ ماہ کی مدت میں سنگین قومی مسائل سے نمٹنے میں پی ای ایم ایل-ن کی حکومت کی سست روی اور دفاعی حکمت عملی کو دیکھتے ہوئے اسے بھی 'ٹک ٹک حکومت' کا خطاب دینا مناسب لگتا ہے-

جون 2013 میں اقتدار میں آنے کے بعد اسے جن قومی مسائل کا سامنا کرنا پڑا انہیں دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے- پہلے حصے میں وہ شدید نوعیت کے مسائل شامل کئے جا سکتے ہیں جن کا تعلق پچھلی دہائی سے کچھ زیادہ سے ہے مثلا، دہشت گردی، بلوچستان میں ہونے والی سرکشی، کراچی میں تشدد، بجلی کی قلت اور ایک کمزور معیشت-

دوسرے حصے میں وہ سنگین مسائل شامل ہیں جو پچھلی کئی دہائیوں سے چلے آرہے ہیں، مثَلاً صحت، تعلیم، عوامی خدمات، انفراسٹرکچر اور آفات کا مقابلہ کرنے کے شعبے میں ناکافی سرمایہ کاری؛ ناقص بیوروکریسی، غیر منصفانہ معاشی اور سیاسی نظام؛ سول-ملٹری تعلقات میں عدم توازن؛ اور عورتوں اور اقلیتوں کے مسائل-

بد قسمتی سے، دونوں طرح کے مسائل کو حل کرنے میں حکومت بڑی حد تک پس و پیش، ہچکچاہٹ اور سست روی کا شکار نظر آتی ہے، اگر چہ کہ مصباح الحق کی طرح اس نے کبھی کبھی بعض مسائل کو حل کرنے میں تیزی دکھاتے ہوئے چھکے بھی مارے ہیں مثلا کراچی آپریشن، بلوچستان کے چیف منسٹر کے معاملے میں مصالحت اور میرٹ کی بنیاد پر چند تعیناتیاں-

بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ گیند ٹپہ کھا کر اچھلتی ہے اور باؤنڈری تک پہنچ نہیں پاتی- نتیجہ یہ ہوا ہے کہ سنگین مسائل کو حل کرنے کے مواقع تو بہت سے ملے لیکن انہیں ضائع کر دیا گیا-

یہ توقع کرنا غیرحقیقی ہوگا کہ پی ایم ایل- ن ان تمام مسائل کو چھ ماہ کے اندر حل کر سکتی تھی- تاہم، وہ یقینا ایک واضح اور قابل یقین منصوبہ بندی کر سکتی تھی جس کی مدد سے سنگین اور پرانے پیچیدہ مسائل حل ہو سکتے تھے، کچھ نہیں تو کم از کم سنگین نوعیت کے مسائل کو حل کرنے کے لئے تو پر زور اقدامات کر ہی سکتی تھی- لیکن بد قسمتی سے ایسا کچھ نہیں ہوا-

آپ نے کچھوے کی کہانی سنی ہوگی- اگر کوئی ثابت قدمی سےچلتا رہے تو آہستہ چلنا مسئلہ نہیں ہوتا- ثابت قدمی کا مطلب ہے ہمیں واضح طور پر پتہ ہونا چاہیے کہ ہم کیا کرنا چاہتے ہیں اور کہاں جانا چاہتے ہیں اور پھر ثابت قدمی سے چلتے اور آہستہ آہستہ آگے بڑھتے رہیں-

پی ایم ایل-ن کا اصل مسئلہ سست روی نہیں، بلکہ ثابت قدمی کا نہ ہونا ہے، یعنی اہم مسائل کے تعلق سے ایک واضح پالیسی کا نہ ہونا-

سنگین مسائل کو حل کرنے میں اس کی پالیسی، سب سے زیادہ غیر واضح تھی خاص طور پر دہشت گردی کے حوالے سے- حکومت یہ بتانے میں واضح طور پر ناکام رہی ہے کہ وہ کیوں سمجھتی ہے کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کامیاب ہونگے جبکہ ماضی میں یہ ہمیشہ ناکام رہے ہیں جس کی وجہ بھی طالبان ہی تھے اور امریکہ کا تذبذب کا رویہ-

معیشت کے شعبے میں بھی،حکومت اپنا یہ عزم دکھانے میں ناکام رہی ہے کہ وہ امیروں پر ٹیکس لگانا چاہتی ہے- اس کے بجائے آئی ایم ایف کی ہدایتوں کو مانتے ہوئے اس نے بالواسطہ ٹیکسوں میں اضافہ کیا جو غریبوں اور متوسط طبقہ کو زیادہ متاثر کرتا ہے- بلوچستان تو لگتا ہے کہ اس کی نظروں سے بالکل اوجھل ہو گیا ہے اور وہاں کے مسائل اور بھی شدید اور بد تر ہوتے جا رہے ہیں-

اس کے باوجود بھی حکومت کی ناکامی کا نوحہ لکھنا قبل از وقت ہوگا کیونکہ اسے اب بھی بہت سے فائدے حاصل ہیں-

سب سے پہلے تو یہ کہ اس کے پاس اب بھی وقت ہے کیونکہ یہ ٹی-20 میچ نہیں کھیل رہی ہے بلکہ اسے پانچ سالہ ٹیسٹ میچ کھیلنا ہے- دوسرے یہ کہ اپوزیشن بکھری ہوئی ہے- پی پی پی 2013 کے انتخابات میں اپنی شرمناک شکست سے ابھی تک باہر نہیں نکل پائی ہے اور ایک علاقائی جماعت بن چکی ہے- سندھ میں اس کی موجودہ کارکردگی پنجاب میں پی ایم ایل-ن کی کارکردگی سے پیچھے ہے جس کے نتیجے میں اس کے لئے مشکل ہوگا کہ یہ 2018 کے انتخابات میں خود کو ایک بہتر متبادل کے طور پر پیش کر سکے-

اسی طرح پاکستان تحریک انصاف کو بھی خیبر پختون خوا میں مسائل کا سامنا ہے جہاں حکومت کرنا پنجاب سے زیادہ مشکل ہے- چنانچہ، اس کے لئے پنجاب کے ووٹروں کو یہ یقین دلانا مشکل ہوگا کہ وہ 2018 کے انتخابات میں پی ایم ایل-ن کو مسترد کر دیں اس صورت میں کہ آخرالذکر ویسی ہی کارکردگی دکھائے جیسی کہ 2013- 2008 کے دوران تھی-

تیسرے یہ کہ اہم شراکت دار مثلا فوج، امریکہ اور عدلیہ حکومت کے ساتھ صبر سے کام لے رہے ہیں-

چوتھے یہ کہ عوام میں حکومت کو اچھی خاصی ساکھ حاصل ہے- حالیہ سروے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ عوام اس کی کارکردگی سے خاصے مطمئن ہیں- پی پی پی، خاص طور پر اس کی صف اول کی قیادت نے عوامی مسائل کی جانب احمقانہ حد تک لا پروائی کا مظاہرہ کیا ہے اور مایوسی کی حد تک یہ ثابت کر دیا ہے کہ انھین صرف اپنے مفادات عزیز ہیں، جبکہ پی ایم ایل-ن کے تعلق سے ابھی تک تاثر یہ ہے وہ اہم عوامی مسائل کو حل کرنا چاہتی ہے-

نواز شریف کے بارے میں بہت سے لوگ ابھی تک یہی سمجھتے ہیں کہ وہ ایک مثبت ورثہ چھوڑنا اور تاریخ میں اپنا مقام بنانا چاہتے ہیں- لیکن انھیں یہ سمجھنا ہوگا کہ تاریخ میں نام بنانے اور تاریخ بن جانے کے درمیان فاصلہ انتہائی کم ہوتا ہے-

آگے بڑھنے کے لئے پی ایم ایل۰ن کو تمام اہم مسائل کے تعلق سے جلد از جلد واضح اور معقول پالیسی تیار کرنا ہوگی-

اس مقصد کے لیئے اس کی صف اول کی قیادت کو اس چھوٹے گروہ کے لوگوں کو چھوڑ کر آگے بڑھنا ہوگا جو ن-لیگ کے اندرفیصلہ سازی پر اثر انداز ہونا چاہتے ہیں اور ایسے لوگوں کو شامل کرنا ہوگا جو وسیع تر سیاسی معاشی مسائل کے معاملات میں ٹھوس پالیسیوں پر عمل درآمد کرنے کا تجربہ رکھتے ہیں-

خوش قسمتی سے، پاکستان میں با صلاحیت لوگوں کی کمی نہیں ہے- واحد مسئلہ یہ ہے کہ آیا یہ شخصیتوں کے دائرے سے نکل کر حکومت چلا سکتے ہیں یا نہیں، جس میں صلاحیت کے مقابلے میں وفاداریوں کو فوقیت دی جاتی ہے-

اگلے بارہ مہینے پی ایم ایل-ن اور پاکستان دونوں ہی کے لئے اہمیت رکھتے ہیں- گزشتہ چھ ماہ پاکستان کے لئے بڑے ہی اہم رہے ہیں کیونکہ پاکستان کے پانچ طاقتور ترین عہدے (صدر، وزیرآعظم، آرمی چیف، چیف جسٹس --- اور طالبان کا سپریم کمانڈر) سب کے سب تبدیل ہو چکے ہیں-

نئے امیدوار بتدریج اپنے عہدے سنبھال رہے ہیں- آنیوالے مہینوں میں ان کے فیصلے درمیانی مدت کے لیَےپاکستان کی قسمت کا فیصلہ کرینگے-

انگلش میں پڑھیں

ترجمہ: سیدہ صالحہ

ڈاکٹر نیاز مرتضیٰ

لکھاری ایک سیاسی و معاشی تجزیہ کار اور یو سی بارکلے کے سنیئر فیلو ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024