کراچی میں امن
تشدد پھیلانے والے عناصر اور جرائم پیشہ کے خلاف 'آپریشن' جاری ہونے کے باوجود، بڑے پیمانے پر قتل و غارت گری ایک بار پھر میٹروپولیٹن میں واپس آچکی، منگل کو کراچی کے مختلف علاقوں میں کم از کم پندرہ افراد قتل کردیے گئے، بظاہر یہ فرقہ وارنہ وارداتیں نظر آتی ہیں۔
ایک شیعہ عالمِ دین اور سیاسی رہنما کو اُن کے محافظ کے ساتھ مارا گیا، جب کہ دن کے اختتام پر دومراکشی باشندوں سمیت تبلیغی جماعت کے تین ارکان کو شہر کی ایک مسجد کے باہر نشانہ بنایا گیا، تاہم کسی نتیجے پر پہنچنے کے لیے احتیاط ضروری ہے۔
بہرحال کراچی کی صورتِ حال اتنی دھندلا چکی کہ کسی قتل کے فوری بعد تک یہ واضح ہی نہیں ہوپاتا کہ واقعہ فرقہ وارانہ، لسّانی یا سیاسی کشیدگی کا نتیجہ ہے یا پھر اس میں جرائم پیشہ گروہ ملوث ہیں، بعض اوقات تو یہ مختلف عناصر کا مجموعہ بھی ہوسکتا ہے۔
ایسے میں جو شے نہایت واضح ہے، وہ ہے کراچی میں مکمل طور پر امن و امان کی ابتر حالت اور جیسا کہ منگل کو جاری رہنے والے تشدد نے ایک بار پھرظاہر کیا، لاکھوں لوگوں کے شہر کو صرف چند گھنٹوں میں مفلوج کیا جاسکتا ہے۔
جب شہر میں جاری قتل کی وارداتوں کے تجزیے کا وقت آتا ہے تو حکومت نہایت بھولپن سے سارا الزام لسّانی اور فرقہ وارانہ عناصر کے سر تھوپ دیتی ہے، ساتھ ہی شہر میں ہونے والے ہر دوسرے قتل کو 'ٹارگیٹ کلنگ' قرار دے دیا جاتا ہے۔
اگرفرقہ وارانہ عناصر شہر میں اپنے حریفوں پر قہر ڈھارہے ہیں یا اگر قاتل لسّانیت کی خاطر کام کررہے ہیں تو پھر اس دعوے کی پشت پناہی کے لیے ٹھوس ثبوت پیش کرنے چاہئیں۔ قابلِ اعتبارثبوتوں کے حصول اور تفتیشی تکنیک سے کام لیتے مشتبہ ملزمان کو ضروری شناخت کیا جانا چاہیے۔
قتل وغارت گری کا تمام تر الزام نہایت بھولپن سے لسّانی یا فرقہ وارانہ عناصر کے سر تھوپنا، گھر کے کچرے کو قالین کے نیچے چھپانے کے مترادف ہے۔ اگر اس عمل میں کوئی 'تیسری قوت' کام کررہی ہے، جیسا کہ خود پولیس حکام کہہ چکے، تو پھر فرقہ واریت کی چنگاری سے آگ بھڑکانے کی کوشش کرنے والی اس قوت کو کس نے جنم دیا ہے؟
تشدد کی منصوبہ بندی اور اس پر پیسہ لگانے والے کون ہیں؟ اور سب سے اہم بات یہ کہ ریاست کیا کررہی ہے؟
اگرچہ گذشتہ چند ماہ کے دوران رینجرز اور پولیس کی کوششوں سے جرائم اور تشدد کی شرح میں کچھ کمی آئی تھی مگر یہ سکون صرف عارضی ثابت ہوا۔
سندھ حکومت کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ صرف علامتوں کو دیکھ رہی ہے تشدد کی جڑیں تلاش نہیں کررہی۔ اس کا طریقہ کار اوررویہ فائر فائڑ کی طرح صرف لگی آگ بجھانے کا ہے، تن دہی سے تفتیش اور قانون کے نفاذ سے اسے ختم کرنے کا نہیں۔
ضرورت ہے کہ پولیس، کراچی میں ہونے والی قتل و غارت میں ملوث لوگوں کے نام ظاہر کرے اور انتظامیہ کو چاہیے کہ ان جرائم میں ملوث مشتبہ افراد کی تحقیقات کرے، انہیں انصاف کے کٹہرے میں لائے اور میٹروپولیٹن کو عدم استحکام سے دوچار کرنے والوں کا نیٹ ورک توڑے۔
اگر مہلک تشدد کا یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا اور اس کی قوت نہ توڑی گئی تو پھر، یہ ملک اور شہر میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لیے خونی بدشگونی ثابت ہوسکتے ہیں۔