جنگی جرائم میں صدر بشارالاسد کا بھی کردار ہے، اقوامِ متحدہ
جنیوا: ایسے ثبوت میں اضافہ ہوتا جارہا ہے جس میں انسانیت کیخلاف جرائم میں شام کے اعلیٰ ترین افسران بشمول صدر حافظ الاسد کی شمولیت کے آثار واضح ہوتے جارہے ہیں۔ اس بات کا انکشاف پیر کے روز اقوامِ متحدہ میں انسانی حقوق کی ایک اعلیٰ ترین عہدیدار نے کیا ہے۔
اقوامِ متحدہ کی ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق نوی پلّے نے کہا ہے کہ شامی جنگ میں دونوں اطراف سے جس پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوئی ہے اسے اقوامِ متحدہ کے ماہرین نے دستاویزی طور پر ریکارڈ کیا ہے۔
' انہوں نے بہت سارے ثبوت جمع کئے ہیں، انہوں نے نیوز کانفرنس میں کہا۔ ' یہ ثبوت ظاہر کرتے ہیں کہ ان میں حکومت کے اعلیٰ ترین اہلکار ملوث ہیں یہاں تک کہ خود ملک کا سربراہ بھی شامل ہے۔
لیکن پلّے نے کہا کہ مشتبہ مجرموں کی یہ فہرست ان کے پاس مہربند اور خفیہ ہے اور اسی وقت ظاہر کی جائے گی جب کوئی ملکی یا غیرملکی اتھارٹی اسے ' باضابطہ اور درست ترین تفتیش' کیلئے استعمال کا ارادہ کرتی ہے۔
پلّے نے یہ بھی کہا کہ شام اور شمالی کوریا وہ دو ممالک ہیں جن کی اقوامِ متحدہ تفتیش کررہا ہے اور وہاں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں جاری ہیں۔ لیکن انہوں نے وسطی افریقن ری پبلک، بنگلہ دیش اور دیگر خطوں پر بھی تشویش کا اظہار کیا۔
اس موقع پر انہوں نے سعودی عرب سے بڑی تعداد میں مزدوروں کی بے دخلی اور قطر کی تعمیرات میں محنت کشوں کی ہلاکت کا بھی ذکر کیا ۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ مارچ 2011 میں شامی تنازعہ شروع ہونے کے کچھ لمحوں بعد ہی یو این نے تحقیقات شروع کردی تھیں ۔ اس دوران کئی مواقع پر حکومت کی جانب سے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں بھی سامنے آئیں۔
پلّے نے کہا کہ شامی صدر بشارالاسد کیخلاف لڑنے والے باغی بھی جنگی جرائم میں ملوث ہیں۔ لیکن اقوامِ متحدہ کی چار رکنی ٹیم جس کی سربراہی برازیل کے پاؤلو سرگیو اور دیگر افراد کررہے ہیں نے براہِ راست اسد کا نام نہیں لیا ہے۔