”انیس ایف سی اہلکاروں کو پولیس کے سامنے پیش کیا جائے“
کراچی: سپریم کورٹ آف پاکستان نے جمعہ 29 نومبر کو قانون نافذ کرنے والے ایک ادارے کے 19 اہلکاروں، جن پر الزام ہے کہ انہوں نے 35 قیدیوں کو اُٹھالیا ہے، کو ہدایت کی ہے کہ وہ بلوچستان پولیس حکام کے سامنے ان کی گمشدگی کے حوالے سے تفتیش کے لیے پیش ہوں۔
چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی صدرات میں چار ججز کے بینچ نے کراچی رجسٹری میں لاپتہ افراد کے مقدمے کی صدارت کرتے ہوئے بلوچستان فرنٹیئر کور کے انسپکٹر جنرل کی غیر حاضری پر سخت برہمی کا اظہار کیا، جنہیں عدالت کے سامنے پیش ہونے کا حکم دیا گیا تھا۔
اٹارنی جنرل منیر اے ملک نے کہا کہ فرنٹیئر کور کے سربراہ اس لیے پیش نہیں ہوئے کہ انہیں عدالت کے حکم کے بارے میں مطلع نہیں کیا جاسکا تھا۔
لیکن چیف جسٹس نے نشاندہی کی کہ وہ جان بوجھ کر مقدمے کی کارروائی کو نظرانداز کررہے ہیں، اس لیے کہ اس بات کے واضح ثبوت موجود ہیں کہ فرنٹیئر کور کے اہلکار جبری گمشدگی میں شامل ہیں۔
عدالت نے یاد دلایا کہ بار بار حکم دینے کے باوجود فرنٹیئر کور کے ذمہ دار حکام جن میں بریگیڈیئر اورنگزیب، کرنل ندیم اور میجر طاہر شامل ہیں، عدالت کے سامنے پیش نہیں ہوئے تھے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ لاپتہ شخص کے مقدمے میں ایک عدالتی تحقیق کے دوران یہ نتیجہ نکلا تھا کہ فرنٹیئر کور کے اہلکار نے عبدالمالک کو اُٹھایا تھا۔
جب اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ افسران جن کے نام لیے گئے ہیں، انہیں فوج میں واپس بھیج دیا گیا تھا، تو چیف جسٹس نے ان کو ٹوکتے ہوئے کہا کہ ”آپ اس معاملے کو دبانے کی کوشش نہ کریں۔ جو لوگ اس معاملے میں ملؤث ہیں، انہیں تفتیش کی لیے پیش کریں۔“
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ کیا عدالت کے احکامات پر عملدرآمد سے روگردانی کرنے پر توہین عدالت کا نوٹس جاری نہیں کردینا چاہیٔے۔
عدالت نے حکام کو ہدایت کی کہ فرنٹیئر کور کے تمام نامزد اہلکاروں کو اتوار کے روز بلوچستان کی اسپیشل برانچ کے ڈی آئی جی کے سامنے حاضر ہونے کو یقینی بنایا جائے تاکہ اس معاملے میں ان سے پوچھ گچھ کی جاسکے۔
اس کے علاوہ عدالت نے سندھ پولیس کے سربراہ کو یہ ہدایت کی کہ لاپتہ افراد کے ان خاندانوں اور رشتہ داروں کو سیکیورٹی فراہم کی جائے جو کوئٹہ سے لانگ مارچ کرکے کراچی پہنچے ہیں۔
اس کے بعد سماعت تین دسمبر تک ملتوی کردی گئی۔