معیشت کی بحالی کے لیے پیکج کا اعلان
اسلام آباد: وزیراعظم نواز شریف نے اقتدار سنبھالنے کے چھ ماہ کے عرصے کے دوران اب تک لیے گئے اقدامات میں سب سے اہم اقدام تجارتی برادری کے لیے ترقی و ترغیب کے ساتھ چھوٹ پر مبنی ایک پیکیج کا جمعرات اٹھائیس نومبر کو اعلان کیا۔ اس پیکیج میں سرمایہ کاری کی بگڑتی ہوئی فضا کو دوبارہ بحال کرنا، نئی ملازمتیں پیدا کرنا اور ٹیکس کی بنیادوں کو وسیع کرنا شامل ہے۔
وزیراعظم کی ایک بزنس ایڈوائزری کونسل بھی تشکیل دے دی گئی ہے، تاکہ اقتصادی امور سے متعلق کیے جانے والے فیصلوں پر عملدرآمد کا سہہ ماہی جائزہ لیا جاسکے۔
وزیراعظم نے کہا کہ کاروباری رہنما، وزراء اور اعلیٰ سطح کے حکام ہر تین ماہ بعد اس ایڈوائزی کونسل کے تحت ایک اجلاس میں شریک ہوں گے، جس میں اقتصادی مسائل پر تبادلہ خیال کرکے فیصلے لیے جائیں گے اور ان پر فوری عملدرآمد کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ اسی طرح کا ایک فوری وزیراعظم کی زرعی ایڈوائزری کونسل بھی جلد ہی تشکیل دی جائے گی، تاکہ یہ دونوں شعبے ملک کو ترقی کے راستے پر گامزن کرسکیں۔
وزیراعظم نے معروف تاجروں اور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے نمائندوں کے ساتھ ایک اجلاس کے دوران اس پیکیج کا اعلان کیا۔
حالیہ فرقہ وارانہ تشدد، سیکیورٹی کی صورتحال، طالبان کے ساتھ مذاکرات، کراچی میں امن و امان کی صورتحال، انڈیا کے ساتھ تعلقات، توانائی کا بحران اور کمزور معیشت سمیت انہوں نے ملکی قیادت کو درپیش تقریباً تمام چیلنجز پر بات کی۔
انہوں نے وعدہ کیا کہ وہ قانون سازی کے ذریعے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی سلامتی اور وقار کی بحال کرائیں گے، تاکہ وہ بھی ملکی ترقی میں اپنا کردار ادا کرسکیں۔
نواز شریف نے مزید کہا کہ ہندوستان کو انتہائی پسندیدہ قوم کا درجہ دینے کا وعدہ پچھلی حکومت نے کیا تھا، جس پر غور کیا جارہا ہے، لیکن اس حوالے سے کوئی حتمی فیصلہ تاجر برادری کے ساتھ مشاورت کے بعد کیا جائے گا۔
کاروباری رہنماؤں کی جانب سے اس جانب نشاندہی کرنے پر جو پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان سے یہ اپیل کررہے تھے کہ جبکہ کسی طرح کا سیاسی فیصلہ لیا جارہا ہے وہ پاکستان کے وسیع ترقومی مفاد میں نیٹو کنٹینرز کے خلاف اپنی مہم بند کردیں، نواز شریف نے کہا کہ اقتصادی معاملے پر کوئی سیاست نہیں ہونی چاہیٔے۔ انہوں نے کہا کہ نو ستمبر کو منعقدہ آل پارٹیز کانفرنس میں متفقہ طور پر یہ فیصلہ کیا گیا تھا امن کے بحال کرنے کے لیے مذاکرات کا موقع دیا جائے گا۔ ”ہم اس عمل کو آگے بڑھانے کے لیے اقدامات کررہے ہیں۔“
انہوں نے کہا کہ یہ ملک عظیم قربانیاں دے چکا ہے اور اس کی معیشت ، عوام اور مسلح افواج پر حملے جاری ہیں اور معصول لوگ اب بھی مسلسل نشانہ بنے ہوئے ہیں، لیکن ”ہم مذاکرات کے عمل کو آگے بڑھانے کی کوشش کریں گے۔“
عمران خان کا نام لیے بغیر وزیراعظم نے کہا کہ طالبان کےساتھ مذاکرات کے معاملے پر کوئی سیاست نہیں کی جانی چاہیٔے اور کسی کو بھی یکطرفہ طور پر اقدام کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔
دنیا بھر کے ممالک اپنے مسائل بات چیت کے ذریعے حل کرتے ہیں، اور یہی وجہ ہے کہ ”ہم بھی ہندوستان کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہتر بنانا چاہتے ہیں۔“
نواز شریف نے کہا کہ ”وہ ہمارے پڑوسی ہیں اور (ملکوں کی سطح پر) پڑوسی بدلے نہیں جاسکتے۔ بہتر یہی ہے کہ بہتر تعلقات کو صبر و تحمل اور تدبّر کے ساتھ آگے بڑھائیں، دوسری صورت میں نہ وہ اور نہ ہم ترقی کرسکتے ہیں۔“
ہندوستان کے ساتھ امن پاکستان کے مفاد میں ہے، اس لیے کہ تلخ روئی کا طریقہ کار کسی بھی طرح سے دونوں قوموں کے مفاد میں نہیں ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ حکومت یکم جنوری 2014ء کے بعد سے دس لاکھ سے پچاس ارب روپے کی گرین فیلڈ صنعتی منصوبے میں سرمایہ کاری یا موجودہ صنعت کی توسیع ، جس سے پانچ لاکھ روپے کی سرمایہ کاری سے ایک شخص کو ملازمت ملتی ہو تو اس صورت میں ذریعہ آمدنی کے بارے میں پوچھ گچھ یا جانچ پڑتال نہیں کرے گی۔
توانائی کے بحران کی وجہ سے پاور پلانٹ کو گرین فیلڈ منصوبے کا حصہ سمجھا جائے گا، اور یہی سہولت کم لاگت کے ہاؤسنگ پروجیکٹ اور مویشی پالنے کے شعبے سمیت تھر، بلوچستان، خیبر پختونخوا میں کان کنی اور معدنیات کی دریافت کے لیے کھدائی کے شعبے کو بھی فراہم کی جائے گی۔
دس صنعتوں کی ایک فہرست کے علاوہ ہر شعبے اس سہولت سے فائدہ اُٹھا سکے گا۔ اس منفی فہرست میں اسلحہ اور گولہ بارود، دھماکہ خیز مواد، کھاد، چینی، سگریٹ، مشروبات، سمینٹ، ٹیکسٹائل اسپننگ ملز، فلور ملز اور نباتاتی گھی اور پکانے کے تیل کی صنعتیں شامل ہیں۔
ٹیکس کی چھوٹ کا اعلان کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ ٹیکس ریٹرن جمع کرانے کی آخری تاریخ کو تیس نومبر سے بڑھا کر پندرہ دسمبر تک کردیا گیا ہے، اور انہوں نے کہا کہ جو لوگ ٹیکس ریٹرن جمع کراچکے ہیں، جب تک کہ نئے اقدامات کی روشنی میں نئی آخری تاریخ نہیں دی جاتی وہ اپنے ٹیکس ریٹرن پر نظر ثانی سے آزاد ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ کسی شخص نے اگر پچھلے سال کے ٹیکس کی رقم سے پچیس فیصد زیادہ کی رقم جمع کرائی ہے تو وہ آڈٹ سے مستثنا ہوجائے گا۔
نیشنل ٹیکس نمبر (این ٹی این) رکھنے والا فرد اگر پچھلے پانچ سال سے انکم ٹیکس ریٹرن یا مسنگ ریٹرن جمع کراتا آیا ہے، اور کم سے کم بیس ہزار روپے سالانہ ادا کیے ہیں، تو وہ جرمانے، ڈیفالٹ سرچارج، اور آڈٹ سے مستثنا ہوگا۔
نیشنل ٹیکس نمبر نہ رکھنے والا فرد اگر رضاکارانہ طور پر ریٹرن ٹیکس جمع کراتا ہے تو اس کو آڈٹ اور ڈیفالٹ سرچارج سے مستثنا قرار دیا جائے گا۔ اس کے علاوہ اگر وہ کم سے کم پچیس ہزار سالانہ ادا کررہا ہے تو وہ پانچ سال کے لیے استثنا کی سہولت سے فائدہ اُٹھا سکے گا۔
کاروباری برادری کا ایک اہم مطالبہ منظور کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ موجودہ ٹیکس دہندگان کے معاملے میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے چیئرمین اور اراکین کے بینک اکاؤنٹس تک رسائی کے اختیارات واپس لے لیے جائیں گے۔