آگے تاریکی ہے
اکثر کہا جاتا ہے کہ پاکستان کی داخلی سلامتی، باشندوں اورمعیشت کے واسطے، دہشتگردی کے بعد سب سے بڑا خطرہ پانی کا بحران ہے۔ عالمی موسمیاتی تبدیلیوں، بڑھتی آبادی اور وسیلے کے غیر دانشمندانہ استعمال کے باعث پاکستان کوپہلے ہی پانی کے شدید دباؤ سے دوچار ممالک میں سے ایک قرار دیا جاچکا ہے۔
زیادہ تشویش کا پہلو یہ ہے کہ آبی دباؤ تیزی سے آبی قلت میں تبدیل ہورہا ہے۔ آبی وسائل و ذخائر سے متعلق مختلف تحقیقاتی جائزوں کا کہنا ہے کہ فی کس شرح کے تناظر میں، دستیاب پانی کی مقدار پاکستان کی توقع سے بھی کہیں زیادہ تیز رفتاری سے کم ہورہی ہے، جس کی زیادہ بڑی وجہ آبادی میں ہونے والا اضافہ ہے۔
سادہ لفظوں میں کہیں تو آزادی کے وقت ہمارے پاس جتنی مقدار میں آبی ذخائر موجود تھے، اب ان کا صرف پانچواں حصہ ہی باقی بچا ہے۔
تخمینوں کی بنیاد پر پیشگوئی ہے کہ سن دو ہزار پچاس تک پاکستان کی آبادی، آج کے مقابلے میں دُگنی ہوجائے گی، اس کا مطلب یہ کہ اگر ہم نے ابھی سے پانی کا کفایتی استعمال شروع کردیا اور عالمی موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث دریائے سندھ کی آبی روانی میں کوئی کمی نہ ہوئی تب بھی، اُس وقت صرف نصف ملکی آبادی کو ہی پانی تک رسائی حاصل ہوگی۔
لہٰذا ان حالات میں، وزارتِ پانی و بجلی کے ایک اعلیٰ افسر نے جب قانون سازوں کے سامنے یہ کہا کہ اگر 'پانی ذخیرہ کرنے اور اس کی حفاظت کے لیے استعداد کو بہتر' بنانے کی خاطر فوری طور پر اقدامات نہ کیے گئے تو ملک کو اگلے بارہ برسوں میںممکنہ طور پر قحط کا سامنا ہوسکتا ہے، تو اس کا مطلب ہے کہ خطرہ دور نہیں۔
خود ایشیائی ترقیاتی بنک کی ایک رپورٹ میں بھی پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش بڑھانے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
حالانکہ پاکستان جیسے موسمی حالات والے ممالک کے لیے سفارش ہے کہ ان کے پاس کم از کم ایک ہزار دن کے لیے کافی، پانی کا ذخیرہ ہونا چاہیے لیکن ملک کے موجوہ آبی ذخائر کسی بھی ہنگامی صورتِ حال میں صرف تیس دن کی آبی ضروریات پورا کرسکتے ہیں۔ پانی کی کوئی بھی ہنگامی صورتِ حال ملک کو سماجی و معاشی بحران کی جانب دھکیل سکتی ہے۔
زیرِ زمین پانی کی بہت بڑی مقدار کو پمپوں کے ذریعے بے دریغ کھینچنے کے باعث خود ہمارے شہروں کو پہلے ہی قلتِ آب کا سامنا ہے۔
تیزی سے بڑھتی پانی کی قلت سے سنگین سیاسی اور معاشی مسائل جنم لے سکتے ہیں۔ زرعی و غیر زرعی، دونوں اقسام کے شعبوں کے واسطے زیادہ پانی کی فراہمی کے مطالبے کے بعض اثرات، بین الصوبائی آبی تقسیم پر موجود تنازعات کی صورت میں پہلے ہی نظرآنے لگے ہیں۔
اس صورتِ حال میں، کاشتکاروں سے لے کر اپوزیشن سیاستدانوں اور جہادی گروپ تک تمام، دریائی بہاؤ کے اوپری سرے پر موجود ہندوستان کو پاکستان کے آبی بحران کا ذمہ دار ٹھہرارہے ہیں۔
شدید آبی دباؤ کا سامنا کرنے والے دنیا کے مختلف خطّوں میں سےایک جنوبی ایشیا ہے اور بعض ماہرین کا خبردار کرنا بلاجواز نہیں کہ یہاں پانی کے مسئلے پر جنگ چھڑ سکتی ہے۔ علاوہ ازیں، پانی کی قلت معیشت اور غذائی تحفظ پر بھی بہت گہرے منفی اثرات ڈال سکتی ہے اور یہ سب کچھ اس لیے ہوگا کہ حکومتیں شعبہ آب میں سرمایہ کاری کرنے میں ناکام رہی ہیں۔
اب بھی اس سنگین صورتِ حال سے بچا جاسکتا ہے لیکن اس کے لیے پانی کا کفایتی استعمال، مزید آبی ذخائر کی تعمیر، بین الصوبائی آبی تنازعات حل، نیز ہندوستان کے ساتھ پانی کی بین السرحدی تقسیم پر موجود تنازعات کا پُرامن حل تلاش کرنے کی ضرورت ہوگی۔ اگر اس وقت موثر اقدامات نہ کیے گئے تو پھر مستقبل تاریک نظر آتا ہے۔