• KHI: Maghrib 6:48pm Isha 8:05pm
  • LHR: Maghrib 6:22pm Isha 7:44pm
  • ISB: Maghrib 6:28pm Isha 7:53pm
  • KHI: Maghrib 6:48pm Isha 8:05pm
  • LHR: Maghrib 6:22pm Isha 7:44pm
  • ISB: Maghrib 6:28pm Isha 7:53pm

ایک افغان کا خواب

شائع November 20, 2013
فائل فوٹو۔۔۔
فائل فوٹو۔۔۔

سال سنہ دو ہزار پندرہ یا اس سے آگے کا ہوگا کیوں کہ ہر کوئی بیرونی طاقتوں کا حوالہ ماضی میں دے رہا ہے- بہار کابل میں اپنے قدم جمانے کی کوشش کر رہی ہے اور بے رحم سردیوں کی گرفت آہستہ آہستہ کمزور ہوتی جا رہی ہے- نوروز کی تقریبات بھی آہستہ آہستہ کم ہوتی جا رہی ہیں، ماحول میں ایک تازگی سی آرہی ہے-

میں نے اپنے سالانہ امتحانات میں کامیابی حاصل کرلی ہے اور اب دسویں جماعت میں آ گئی ہوں- یہ میرا اسکول میں آخری سال ہوگا- اگلی بہار جب آۓ گی تو میں کالج میں ہوں گی، ممکن ہے اپنی فیملی سے دور کسی دوسرے شہر یا ملک میں- اس خیال سے میں پریشان بھی ہو جاتی ہوں اور جذباتی بھی-

ابھی میرے والد کو بہت سی تفصیلات پر غور کرنا باقی ہے، “لڑکیوں کے لئے ڈاکٹر بننا بہت مشکل ہوتا ہے، تمھیں بہت محنت کرنا ہوگی-”

وہ بس اتنا ہی کہتے ہیں لیکن ان کے یہی الفاظ ایک لمبے سمے تک مجھے متوقع ’اگر مگر’ کے کھیل میں الجھاۓ رکھتے ہیں-

اگر میں کسی دوسرے ٹاؤن چلی گئی، تو میں اپنے دوستوں اور ہم جماعتوں کے ساتھ گھر سے اسکول تک کی یہ “صبح کی چہل قدمی” کھو دوں گی — یہ روزانہ کی رسم ایک بہت ذاتی اور ثقافتی تقریب بن گئی ہے-

سڑک سے ہم مرکزی بازار کا راستہ اپناتے ہیں، اس وقت یہ راستہ مختصر بھی ہوتا ہے اور محفوظ بھی- لیکن دوپہر کے وقت ہمیں مختلف اور قدرے لمبا راستہ اختیار کرنا پڑتا ہے کیوں کہ اس وقت بازار مردوں سے بھرا ہوتا ہے-

میں پچھلے دس سالوں سے اس راستے سے گزر رہی ہوں- مجھے اس کی ایک ایک اینٹ، ایک ایک پودے اور ایک ایک کھڈے کا پتا ہے- تاہم، مجھے اس بات کا یقین نہیں کہ آیا یہ راستہ بھی مجھے اتنا ہی جانتا ہے یا نہیں-

ہم جنگل میں چھوٹے جانوروں کی طرح اکٹھے ایک گروہ کی شکل میں چلتے ہیں، جن پر شکاریوں کی ہر پل نظر رہتی ہے، ایک ساتھ رہنے سے ان سے کسی حد تک بچاؤ ممکن ہے-

میری ہم جماعت پہلے میرے گھر آتی ہے جہاں وہ میرا اور میرے دو چھوٹے بھائیوں کا انتظار کرتی ہیں- میرے انکل مزاق میں ہمیں بھیڑوں کا ریوڑ کہتے ہیں، انہیں دیکھتے ہی وہ آواز لگاتے ہیں، “بنا چرواہے کے ریوڑ دروازے پر کھڑا انتظار کر رہا ہے، جلدی کرو”-

انہوں نے ایک بار ہمیں اپنے گاؤں کے بارے میں بتایا تھا، جہاں چرواہے گاؤں والوں سے کنٹریکٹ کر لیتے ہیں جس کے تحت وہ صبح گھر گھر جا کر مویشی جمع کرتے ہیں اور سارا دن انہیں چراہ گاہ میں چرانے کے بعد شام کو واپس لے آتے ہیں-

میرے انکل بہت پیارے انسان ہیں- وہ خود کو گھڑ سوار (‘ہارس مین’) کہتے ہیں- وہ ایک بہت بڑا ٹرک چلاتے ہیں جس میں خام لوہا لے کر ہندوستان پہنچاتے ہیں- وہ اکثر لمبے عرصے تک گھر سے باہر رہتے ہیں چناچہ انکی بیوی ہمارے ساتھ ہی رہتی ہیں- کابل میں ان کے بہت کم رشتہ دار ہیں- اصل میں ان میں سے زیادہ تر رشتےدار جنگوں میں مارے جا چکے ہیں- ان کے بڑے بھائی فوج میں ہیں اور ہلمند میں تعینات ہیں، وہ بہت کم ملنے آتے ہیں-

انکل جب بھی لمبے سفر سے واپس آتے ہیں تو ہمارے لئے مٹھائیاں اور بہت سی کہانیاں سننے کو لاتے ہیں- وہ سونے کے وقت کے لئے بہترین ہوتی ہیں کیوں کہ ان سے بہت پیارے خواب آتے ہیں- پچھلی بار انہوں نے بتایا کہ کس طرح ان کے تمام ڈرائیور دوست ہندوستان کے ایک سنیما میں فلم دیکھنے گۓ-

میں نے اگلی صبح یہ کہانی اپنے ‘ریوڑ’ کو سنائی، سب کو بہت پسند آئی ان میں سے اکثر چند قدم بعد میرے پاس آتے اور مجھ سے احمقانہ سوالات کرتے- ہیرو کون تھا؟ کیا وہ خان تھا؟ کیا وہاں لڑکیاں بھی سنیما جاتی ہیں؟ اس دن میں اس ‘ریوڑ’ کا مرکز تھی، کسی سلیبریٹی کی طرح جسے چاروں طرف اس کے مداحوں نے گھیر رکھا ہو-

لیکن آج نہیں- کئی بار میرے بھائی نے آکر مجھے احساس دلایا کہ میں پیچھے پیچھے اکیلی چل رہی ہوں- ‘کوئی بات نہیں’، میں نے اسے ٹالنے کی کوشش کی، لیکن اس نے اپنے دوستوں کو چھوڑ کر میرے ساتھ چلنا شروع کر دیا- وہ یقیناً ان ایک سو ایک اصولوں پر عمل کر رہا تھا جو ہماری ماں نے ہمارے لئے وضح کر رکھے تھے کہ جب ہم گھر سے باہر ہوں تو ہمیں کیسے رہنا چاہیے-

لڑکوں اور لڑکیوں کے لئے ان کے اصولوں کی فہرست میں الگ الگ حصّے ہیں- اور وہ اس بات کی کوشش کرتی ہیں کہ ہمیں وہ اصول ہر وقت یاد رہیں- وہ کوئی رسک نہیں لینا چاہتیں، جب ہم گھر سے باہر نکل رہے ہوتے ہیں تو وہ ہمیں جلدی جلدی وہ فہرست رٹواتی ہیں؛

“اور اس ٹوٹے پل سے گزرتے ہوۓ ذرا دھیان رکھنا، وہ علاقہ نشئیوں سے بھرا پڑا ہے”- انہوں نے گلی میں مزید آگے بڑھ کر اپنا جملہ مکمل کیا-

میرے والد نے ہنستے ہوۓ انہیں چھیڑا، “بچوں تم اسکول جا رہے ہو نا ذرا انکو بھی ساتھ لے جاؤ، تھوڑی سمجھدار ہو جائیں گی”-

“مجھے پتا ہے تمھیں کس چیز کی فکر ہے، بھوکے آدمی”، میری ماں نے جوابی حملہ کیا-

ہمارے جانے کے فوراً بعد ماں میرے والد کو ناشتہ دیتی ہیں- انھیں بھی بس پکڑنے کے لئے جلدی گھر سے نکلنا ہوتا ہے- جو انہیں گیس پائپ لائن کمپنی کے سائٹ آفس لے جاتی ہے، وہ وہیں کام کرتے ہیں-

انکا پک اپ پوائنٹ ہمارے راستے میں ہی پڑتا ہے، ایک مصروف چاۓ اسٹال کے برابر میں- یہ بازار میں صبح سویرے کھلنے والی چند دکانوں میں سے ایک ہے- یہاں پر آوازیں اور قہقہے گونجتے رہتے ہیں-

اس کی دیوار پر روڈ کی جانب لگا ہوا ایک ٹی وی ہر وقت چلتا رہتا ہے، چاۓ پینے والے اپنے سامنے جاۓ نماز کی طرح اخبار بچھاۓ رکھتے ہیں اور ہمیشہ کسی گرما گرم بحث میں مصروف نظر آتے ہیں-

میں جانتی ہوں کہ سیاست مردوں کا پسندیدہ موضوع ہے- پچھلے ہفتے والد نے اپنے نۓ شادی شدہ دوست، انکی بیوی اور چند اور مہمانوں کو کھانے پر بلایا تھا- جب تک میری ماں کھانا تیارکرنے میں رہیں، دلہن میری چچی سے باتیں کرتی رہی-

وہ دونوں ایک دوسرے کو نہیں جانتی تھیں لیکن چونکہ دونوں نے اپنا بچپن پشاور کے پناہ گزین کیمپ میں گزارا تھا اس لئے دونوں کے پاس باتیں کرنے کو بہت کچھ تھا-

وہ پوری شام گزرے ہوۓ دنوں کی باتیں کرتی رہیں- دلہن کے اکثر گھر والے پاکستان میں ہی رہتے ہیں، اور اکثر یہاں کاروبار کے سلسلے میں آتے جاتے رہتے ہیں، میں نے سنا ان میں ایک موبائل فون کا کاروبار کرتا ہے-

میری چچی امید سے ہیں چناچہ ماں انہیں گھر کے کام نہیں کرنے دیتیں- میں برتن دھو رہی تھی اور اپنی والدہ کی مدد کر رہی تھی- میں کھانے سے بھری ٹرے مہمان خانے کے دروازے تک لے کر جاتی جہاں سب مرد حضرات بیٹھے تھے، وہاں سے میرا بھائی ٹرے اندر لے جاتا-

وہاں سے میں اپنے والد اور ان کے دوستوں کو امریکا، چین اور پاکستان کا بار بار ذکر کرتے سنتی- کبھی ان کی آواز میں خوشی کا عنصر ہوتا پھر اگلے ہی لمحے وہ جوش اور حیرت میں تبدیل ہو جاتی- “کیا کچھ سال پہلے آپ ایسے امن کا سوچ بھی سکتے تھے؟” یہ میرے والد تھے- “میں تو سوچتا تھا کہ یہ خونی جارحیت کبھی ختم نہ ہوگی اور میں ایک دن کسی روڈ پر کتے کی طرح مارا جاؤں گا”.

ان کے دوست نے تائید کی اور ماحول سنجیدہ اور رنجیدہ ہو گیا- انہوں نے آہ بھری اور تھوڑی دیر کے لئے خاموشی چھا گئی جیسے اپنے پیاروں کا سوگ منا رہے ہوں جو روڈ پر کتے کی موت مارے گۓ تھے-

لیکن جب میں اگلی بار کباب کی پلیٹ لے کر وہاں پہنچی تو سب کچھ پھر سے نارمل ہو گیا تھا اور وہ سب اپنے ایک ساتھی کی کسی احمقانہ حرکت پر ہنس رہے تھے- ابّو کے ایک دوست جو کسی چائنیز کمپنی میں کام کرتے ہیں کہانیاں سنانے کے شوقین ہیں-

اسی روڈ پر ایک اور چاۓ اسٹال ہے، لیکن وہ دوسری سائیڈ پر ایک گلی کے کونے میں ہے- بازار کے آخر میں چمکدار گیٹ والا ایک نیا پلازہ ہے- ہم یہاں روزانہ ایک چوکیدار کو کرسی پہ بیٹھا اونگھتے ہوۓ دیکھتے ہیں-

اس بلڈنگ کے گراؤنڈ فلور پر کابل فرائیڈ چکن نام کا ایک ریسٹورانٹ ہے- یہ بچوں کی پسندیدہ جگہ ہے- یہاں پر کھیلنے کی جگہ ہے، بڑی سکرین والے ٹی وی لگے ہوۓ ہیں اور کیش کاؤنٹر پر کچھ لڑکیاں ملازم ہیں- میری ساتھیوں میں سے جو بھی وہاں جاتی ہے اگلے دن دوسروں ضرور پوچھتی ہے،”تم وہاں گئی ہو؟”

اس پلازا کی بائیں جانب ہم روڈ پر مڑ جاتے ہیں جہاں دونوں جانب درختوں کی قطاریں لگی ہوئی ہیں- سال کے اس وقت یہ درخت اودے رنگ کے پھولوں سے بھرے ہوتے ہیں ایسا لگتا ہے پھولوں نے پتوں کو بھگا کر ہر شاخ پر اپنا قبضہ جمع لیا ہے-

سورج بالکل ہمارے سامنے قدرے نیچے ہو کر چمک رہا ہے، اس کی شعاعیں سیدھی آنکھوں میں پڑ رہی ہیں- ہمیں ان سے بچنے کے لئے اپنی کتابوں کا سہارا لینا پڑتا ہے-

ٹوٹا ہوا پل اور اس کے ‘رہائشی’ جن کے بارے میں میری ماں نے خبردار رہنے کو کہا ہے، روڈ کے ساتھ ساتھ نظر آتے ہیں- ہم اس پل کے برابر میں تعمیر شدہ نۓ پل سے گزرتے ہیں جو ایک نالے پر بنایا گیا ہے، کبھی یہ نہر ہوا کرتی تھی-

میں جانتی ہوں ماں یہاں مجھے خبردار رہنے کو کیوں کہتی ہیں- مجھے اپنی نظریں سیدھی اور جھکاۓ رکھنی ہیں، ادھر ادھر بالکل نہیں دیکھنا، نظر قدموں پر رکھنی ہے، اور جتنی تیزی سے ہو سکے چلنا ہے- میں یہ آسانی سے کر لیتی ہوں، اب عادت ہو گئی ہے-

میری ماں بہت عظیم ہے- میرے ساتھ کیا کچھ ہو سکتا ہے، لگتا ہے وہ سب جانتی ہیں- انہوں نے گھر کے دروازے سے لے کر میرے اسکول تک ایک رسی سی باندھ دی ہے اور مجھے اس تنی ہوئی رسی پر چلنا سکھایا ہے-

یہ اتنا آسان نہیں جتنا دیکھنے میں لگتا ہے- ایک غلط قدم اور آپ خاک و خون اور گند کے گڑھے میں جا گریں گے- ہو سکتا ہے پل کے نیچے ہیروئن کے نشے میں دھت پڑے یہ نشئی بھی اپنی رسیوں سے گر گۓ ہوں یا ان کے والدین ہی نہ ہوں جو ان کے لئے ایسی رسی باندھتے-

لیکن میں یہ سب جاننے کے لیے نہیں رک سکتی، میری زندگی میں اس قسم کے ایڈونچر کی کوئی گنجائش نہیں ہے چناچہ میں انجان بن کر جلد از جلد ان کے بیچ سے گزرنے کی کوشش کرتی ہوں-

لیکن میرے لئے اپنے اسکول سے پہلے فٹ پاتھ پر بیٹھے ایک بوڑھے شخص کو نظر انداز کرنا ناممکن ہو جاتا ہے- وہ میری ماں کی تنبیہی کتابچے میں فٹ نہیں ہوتا، کیا اس کا مطلب ہے مجھے اس سے ڈرنا نہیں چاہیے؟

وہ بالکل انہی نشئیوں کی طرح لگتا ہے جن سے مجھے خبردار رہنا ہے-

وہ گندا، میلا، چیتھڑوں میں ملبوس ایک گندے سے کمبل پر بیٹھا یا لیٹا رہتا ہے- اس کے اطراف میں پرانے کپڑوں کے کچھ بنڈل اور دیگر چیزیں اور خالی کارٹن پڑے ہوتے ہیں-

وہ ہر وقت مصروف رہتا ہے کبھی چیزوں کو آپس میں باندھ رہا ہوتا ہے یا پھر انہیں عجیب انداز میں دوبارہ ترتیب دے رہا ہوتا ہے- میری ایک ساتھی نے بتایا کہ جب وہ جوان تھا تو ایک لینڈ مائن سے اسکا حادثہ ہو گیا تھا اور اس کے باقی گھر والے بھی جنگوں میں مارے گۓ تھے- اس کے پاس ایک بیساکھی ہے لیکن ہم نے کبھی اسے چلتے ہوۓ نہیں دیکھا-

میں نہیں جانتی کہ آیا مجھے اس سے ڈرنا چاہیے یا ہمدردی کرنی چاہیے- میں اس کا ذکر اپنی ماں سے نہیں کرنا چاہتی ورنہ ان کی ہدایات میں مزید اضافہ ہو جاۓ گا- میں اس معاملے کو خود نپٹانا چاہتی ہوں لیکن کیسے یہ نہیں جانتی-

امتحانات کے دوران ہمارا یہ گروہ ٹوٹ جاتا ہے کیونکہ مختلف جماعتوں کے الگ الگ ٹائم ٹیبل ہوتے ہیں- ایسی صبح مجھے اکیلے ہی اسکول جانا ہوتا ہے میرے بھائی صبح سویرے اٹھنے سے انکار کر دیتے ہیں اور پھر میرے والد میرے ساتھ ہی ناشتہ کر کے مجھے اسکول تک چھوڑنے جاتے ہیں، پھر واپس بس اسٹاپ آکر وہاں سے بس پکڑتے ہیں-

اپنے والد کے ساتھ اسی راستے پر چلنے کا احساس ہی مختلف تھا- میں خوش تھی، بیخوف اور مسرور تھی- آج میں اس تنی ہوئی رسی پر رقص کرنا چاہتی تھی- میں بے تکان ان سے بات کیے جا رہی تھی- ایسا شاذ و نادر ہی ہوتا ہے کہ وہ صرف میری باتیں سنیں میرے بھائیوں کی نہیں، اور وہ بھی بنا کسی اور کی مداخلت کے!

لیکن پھر میرے والد نے ایک عجیب کام کیا- وہ اس چیتھڑوں میں ملبوس شخص کے پاس رک گۓ- میں تھوڑا فاصلے پر رک کر بے چینی سے انہیں دیکھ رہی تھی- وہ وہیں بیٹھ گۓ، ان سے ہاتھ ملایا اور شاید کچھ پیسے بھی دیے کیوں کہ میں نے انہیں ہاتھ جیب میں ڈالتے اور کوئی چیز نکالتے ہوۓ دیکھا-

میں بے چین بھی تھی اور پریشان بھی- جیسے ہی وہ میرے پاس آۓ میں نے سوالات کی بوچھاڑ کر دی، “کیا آپ کو اس سے ڈر نہیں لگا؟ کیا وہ خطرناک نہیں ہے؟ کیا وہ آپ کو گندا نہیں لگا؟”

میرے والد نے کوئی جواب نہ دیا، میں نے پھر پوچھا، “کیا آپ اسے جانتے ہیں؟ کیا وہ آپ کا دوست ہے؟”

والد کے افسردہ چہرے نے میری بے چینی کو فکر میں تبدیل کر دیا،”ابّو، کچھ بولیں نا، وہ کون ہے؟”

انہوں نے تھوڑی دیر رک کر میرے سر پہ ہاتھ رکھا اور کہا، “بچے، وہ ہمارا ماضی ہے-”

اس کے بعد ہم نے تمام راستے کوئی بات نہ کی-

ترجمہ: ناہید اسرار

طاہر مہدی

لکھاری الیکشن اور گورننس میں دلچسپی رکھنے والے آزاد محقق ہیں۔ وہ ٹوئٹر پر TahirMehdiZ@ کے نام سے لکھتے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

کارٹون

کارٹون : 31 مارچ 2025
کارٹون : 30 مارچ 2025